تاج محل کی نگرانی پر تعینات پولیس اہل کاروں کو غلیلیں فراہم کر دی گئی ہیں تاکہ وہ دنیا کی عجائبات میں شامل اس تاریخی عمارت کو دیکھنے کے لیے آنے والوں کو بندروں سے تحفط فراہم کر سکیں۔
پولیس اہل کاروں سے کہا گیا ہے کہ وہ سیاحوں کو تنگ کرنے والے بندروں کو ڈرانے اور بھگانے کے لیے غلیل اور کنکر کا استعمال کریں، تاکہ انہیں گزند بھی نہ پہنچے۔
قدامت پسند ہندووں کے نزدیک بندر ایک متبرک جانور اور دیوتا ہنومان کا پرتو ہے جسے نقصان پہنچانا منع ہے۔
تاج محل کے اندر اور آس پاس بندر کثیر تعداد میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ وہ سیاحوں سے کھانے پینے کی چیزیں چھین لیتے ہیں۔ کچھ بندر تو اتنے نڈر اور دلیر ہو چکے ہیں کہ لوگوں پر حملہ بھی کر دیتے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں غیرملکیوں سمیت کئی سیاح بندورں کے حملوں میں زخمی ہو چکے ہیں۔
حال ہی میں ایک بندر ایک خاتون سے اس کا پرس چھین کر بھاگ نکلا۔ جب اس نے پیچھا کر کے اپنا پرس واپس لینے کی کوشش کی تو بندر نے حملہ کر کے اسے زخمی کر دیا۔
اسی طرح کے ایک اور واقعہ میں جب کولمبیا کی ایک سیاح خاتون نے بندر کی جانب سے پرس چھننے کی کوشش ناکام بنانے کی کوشش کی تو اس نے پرس میں سے نوٹ نکال کر پھاڑ ڈالے۔
ایک اور واقعہ میں دو فرانسیسی سیاح بندروں کے حملے میں اس وقت زخمی ہو گئے جب وہ اپنی سیلفیاں لے رہے تھے۔
آگرہ ہی میں ایک اور واقعہ میں ایک بندر ایک گھر میں گھس کر ایک عورت کی گود سے اس کا شیرخوار بچہ چھین کر چھتیں اور دیواریں پھلانگتا ہوا بھاگ نکلا۔ لوگوں کے پیچھا کرنے پر وہ بچے کو ایک چھت کی منڈیر پر رکھ کر بھاگ کیا۔ جب بچے کو وہاں سے اٹھایا گیا تو وہ ہلاک ہو چکا تھا۔
بھارت کی پیرا ملٹری پولیس کے ترجمان ہرمندرسنگھ نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ بندروں کے حملوں کے متعدد واقعات کے بعد سیاحوں کے تحفط کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔
سرخ چہرے کی نسل کے بندر آگرہ میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس شہر میں ان کی تعداد 15000 کے لگ بھگ ہے۔ ان کی اکثریت سنگ مرمر سے بنے تاج محل کے اندر اور آس پاس پائی جاتی ہے۔ جہاں وہ سیاحوں سے کھانے پینے کی چیزوں کے لیے چھینا جھپٹی کرتے نظر آتے ہیں۔
بھارت میں بندروں کی مجموعی تعداد کا تخمینہ تقریباً پانچ کروڑ ہے۔
ہرمندر سنگھ کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش یہ ہے کہ عمارت اور سیاحوں کو بندروں سے بچایا جائے اور بندروں کو بھی نقصان نہ پہنچے۔
تاج محل سیاحت کے بھارتی ادارے کے لیے آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ہے جسے دیکھنے کے لیے روزانہ غیرملکیوں سمیت ہزاروں افراد آتے ہیں۔
آثار قدیمہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ تاج محل کی عمارت کو بندروں سے ہی نقصان نہیں پہنچ رہا ہے جو اس کے گنبدوں پر چڑھ کر اچھل کود کرتے ہیں۔ بلکہ اس کے علاوہ فضائی آلودگی سے بھی اس کی سفید رنگت زرد پڑ رہی ہے اور مکھیوں اور دوسرے کیڑے مکوڑوں اور پتنگوں کے دیواروں پر بیٹھنے اور ان کے فضلے سے بھی تاریخی عمارت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔