افغان طالبان کے ترجمان نے جمعہ کو باضابطہ طور پر یہ اعلان کیا ہے کہ مرکزی شوریٰ نے ملا اختر منصور کو تنظیم کا نیا سربراہ مقرر کیا ہے۔
افغانستان میں طالبان کی طرف سے جمعرات کو باضابطہ طور پر ملا عمر کے انتقال کی تصدیق کی گئی تھی۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا کہ ملا اختر منصور اس سے قبل ملا عمر کے نائب کے طور پر کام کر رہے تھے اور وہ طالبان کے سیاسی اور خارجہ اُمور کے سربراہ تھے۔
ترجمان کے مطابق مولوی ہیبت اخونزادہ اور سراج الدین حقانی کو ملا اختر منصور کے نائیبن مقرر کیا گیا۔
سراج الدین حقانی، شدت پسند گروپ ’حقانی نیٹ ورک‘ کے سربراہ کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ ’حقانی نیٹ‘ افغان سرحد کے قریب پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں سرگرم تھا اور یہ گروہ افغان حکومت کے عہدیداروں اور افغانستان میں تعینات بین الاقوامی فورسز پر حملوں میں بھی ملوث رہا ہے۔
شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کے آپریشن ’ضرب عضب‘ کے بعد حکام کے مطابق دیگر شدت پسندوں کے ساتھ ساتھ حقانی نیٹ ورک کا بھی اس علاقے سے خاتمہ کر دیا گیا ہے۔
طالبان ذرائع کے مطابق مولوی ہیبت اللہ 2001ء سے قبل افغانستان میں طالبان کے دور حکومت میں عدالتی نظام کے سربراہ تھے۔
اگرچہ طالبان نے باضابطہ طور پر ملا اختر منصور کو تنظیم کا نیا سربراہ مقرر کیا ہے لیکن اطلاعات کے مطابق اس منصب کے لیے بعض دھڑے ملا عمر کے بڑے بیٹے ملا یعقوب کا انتخاب چاہتے تھے۔
طالبان کی طرف سے یہ تو نہیں بتایا گیا کہ ملا عمر کا انتقال کب ہوا۔
افغان حکومت کا دعویٰ ہے کہ اُن کی موت دو سال قبل کراچی کے ایک اسپتال میں واقع ہوئی، لیکن طالبان کا دعویٰ ہے کہ ملا عمر 2001ء کے بعد ایک دن کے لیے بھی افغانستان سے باہر نہیں گئے۔
ملا عمر کے انتقال کی خبروں کے بعد پاکستانی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغان حکومت اور طلبان کے درمیان مذاکرات کے دوسرے دور کو طالبان قیادت کی درخواست پر موخر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
بیان میں اس اُمید کا اظہار بھی کیا گیا کہ پاکستان اور دیگر دوست ممالک اُمید رکھتے ہیں کہ طالبان قیادت مذاکرات کے عمل کو جاری رکھے گی۔
وزارت خارجہ کے بیان میں اس توقع کا اظہار بھی کیا گیا کہ جو قوتین مذاکرات کے اس عمل کو اپنی بدنیتی اور منفی رویے کی بنا پر سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں وہ اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوں گی۔
اُدھر وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے اجلاس میں بتایا کہ ملا عمر کی موت کی تصدیق مختلف ذرائع سے کی جا رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ملا عمر کی موت بعد طالبان اور افغانستان کی حکومت کے درمیان مذاکرات کا عمل منسوخ نہیں بلکہ موخر ہوا ہے۔
پاکستان کی میزبانی میں پہلی مرتبہ سات جولائی کو افغان طالبان اور افغانستان کی حکومت کے نمائندوں کے درمیان اسلام آباد کے قریب سیاحتی مقام مری میں براہ راست مذاکرات ہوئے تھے۔
بات چیت کا دوسرا دور 31 جولائی کو پاکستان میں ہی ہونا تھا۔
اُدھر امریکی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان مارک ٹونر نے روزانہ کی نیوز بریفنگ کے دوران کہا کہ افغانستان میں مصالحت کے عمل میں پاکستان نے بہت معاونت کی اور امریکہ چاہتا ہے کہ اس ضمن میں پاکستان اپنا تعمیری کردار جاری رکھے۔
مارک ٹونر نے کہا کہ ہم طالبان کی حوصلہ افزائی کریں گے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان کی حکومت سے حقیقی مذاکرات کا آغاز کریں۔
اُنھوں نے کہا کہ طالبان امن عمل میں شمولیت اختیار کر کے بالآخر عالمی برداری کے حمایت یافتہ سیاسی عمل کا حصہ بن سکتے ہیں، بصور دیگر وہ افغانوں کے خلاف لڑائی جاری رکھ کر خود ہی اپنے ملک کو عدم استحکام کا شکار کریں گے
ترجمان کے مطابق یہ فیصلہ اب طالبان ہی کو کرنا ہے۔