طالبان امریکہ کے ساتھ تعلقات کی نئی شروعات چاہتے ہیں، ترجمان سہیل شاہین
امريکی فوج کے افغانستان سے انخلا کے بعد امريکہ اور طالبان کے درمیان کس نوعیت کے تعلقات ہو سکتے ہیں، اس پر تجزیہ کاروں کی رائے منقسم ہے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ طالبان سے امریکہ کے تعلقات کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ طالبان عالمی برادری سے کیے گئے اپنے وعدوں کی کتنی باسداری کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ نے یہ جاننے کے لیے کہ طالبان اس بارے میں کیا سوچ رہے ہیں، طالبان کے ایک ترجمان سہیل شاہین سے بات کی اور ان سے یہ پوچھا کہ وہ طالبان کے امریکہ سے تعلقات کو کس طرح دیکھتے ہیں، دوست کے طور پر یا دشمن کے طور پر؟
امریکہ سے تعلقات
ان کا کہنا تھا کہ جس وقت امریکہ افغانستان میں ان سے جنگ لڑ رہا تھا اس وقت وہ ان کا دشمن تھا۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے دوحہ مذاکرات کا حوالہ دیا اور یہ بھی کہا کہ آخرکار امریکہ نے بھی یہ محسوس کر لیا کہ فوجی ایکشن اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ طالبان کے ترجمان نے مزید کہا کہ اب یہ چیپٹر ختم ہو چکا ہے اور نیا دور شروع ہو رہا ہے۔
سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ "ہم نئی شروعات چاہتے ہیں۔ اب یہ امریکہ پر منحصر ہے کہ وہ ہمارے ساتھ کام کرے گے یا نہیں۔ وہ افغانستان میں غربت کے خاتمے، تعلیم کے شعبے، اور افغانستان کے بنیادی ڈھانچے کو کھڑا کرنے میں مدد کرتا ہے یا نہیں۔ اور یہ بھی کہ اگر وہ یہاں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں تو ہم ان کا خیرمقدم کریں گے۔ ایک دوست سے ایسا کرنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
تحریک طالبان پاکستان پر پاکستان کے خدشات
تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی پر پاکستان کے خدشات کے حوالے سے وائس آف امریکہ نے ان سے پوچھا کہ اس گروپ کے ساتھ اپنے نظریاتی تعلق کی وجہ وہ اس مسئلے کا حل کس طرح نکالیں گے۔ جس پر انہوں نے اپنے اس موقف کا ایک بار پھر اعادہ کیا کہ وہ کسی بھی گروہ کو افغانستان کی سرزمین سے دہشت گرد حملوں کی اجازت نہیں دیں گے۔
طالبان کا عالمی برادری سے افغانستان کی امداد جاری رکھنے کا مطالبہ
داعش پا قابو پانے کی طاقت ہے
داعش کی خطے میں موجودگی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ داعش کو کنٹرول کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا، "جب ہمارے ملک پر قبضہ کیا گیا تھا تو شمالی صوبوں کنڑ اور ننگرہار میں داعش موجود تھی۔ امریکہ بمباری یا ڈورن سے حملے کرنے کے باوجود انہیں ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ لیکن جب داعش نے لڑنا شروع کیا تو ہم نے ان صوبوں میں ان کا مقابلہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے انہیں ننگرہار، کنڑ اور شمالی صوبوں سے ان کا صفایا کر دیا اور سابقہ انتظامیہ انہیں کابل لے گئی۔
تمام نسلی گروپس کی نمائندہ حکومت
کابینہ پر امریکہ کے اس اعتراض کے جواب میں کہ وہ تمام لوگوں کی نمائندگی نہیں کرتی، سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ یہ حکومت تمام نسلی گروپس کی حمایت سے بنائی گئی ہے۔ الیکشن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس پر آئین کے مسودے پر کام کرتے وقت دیکھا جائے گا۔
سہیل شاہین کے کہا، "آپ افغانستان میں تمام نسلی گروہوں پر مشتمل ایک طاقت دیکھ سکتے ہیں۔ جہاں تک الیکشن کی بات ہے، الیکشن ہوتے ہیں یا نہیں، اس کے لیے انتظار کرنا پڑے گا۔ مستقبل میں آئین پر کام کرنے کا منصوبہ ہے تو ان پر آئین کے مسودے کی تیاری کے وقت غور کیا جا سکے گا، ابھی نہیں۔
عورتوں کے حقوق
عورتوں کے حقوق، تعلیم اور حکومت میں شمولیت سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ عورتوں کو شریعت کے مطابق تمام حقوق دیے جائیں گے، لیکن جہاں تک عورتوں کے اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز ہونے کی بات ہے تو اس پر علمائے دین کے مشوروں کے بعد ہی غور کیا جائے گا۔
'افغانستان میں سرگرم خواتین کارکن بے بس اور افسردہ ہیں'
خواتین کےحقوق کے لیےکام کرنے والی سرگرم افغان خواتین کا کہنا ہے کہ ان کے خدشات بدستور موجود ہیں۔ انہی خدشات کے پیش نظر کھیلوں اور کئی دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والی متعددخواتین ملک چھوڑ کر چلی گئی ہیں۔
عالمی ادارے پاکستان کے راستے افغانستان میں امدادی سامان پہنچا رہے ہیں
دنیا کے بہت سے ملکوں میں اس وقت انسانی بنیادوں پر مدد کی ضرورت ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق دنیا کے 50 سے زیادہ ملک ایسے ہیں جہاں عام آدمی کے لئے مدد کی ضرورت ہے اور ان ملکوں میں اس وقت سر فہرست افغانستان اور یمن ہیں۔
افغانستان کی تازہ ترین صورت حال کے باعث اقوام متحدہ کے تحت کام کرنے واالے امدادی ادارے یا دوسرے ادارے فوری توجہ دے رہےہیں کیونکہ وہاں سردی کا موسم قریب آ رہا ہے اور عشروں کی لڑائیوں کی وجہ سے بے گھر ہونے والے لاکھوں لوگ کے لیے امداد پہنچانا مشکل ہو جائے گا، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں برف باری سے راستے بند ہو جاتے ہیں۔
ملک کی ابتر معاشی صورت حال کی وجہ سے لاکھوں افراد کو خوراک میسر نہیں اور ان کے پاس نہ تو سر چھپانے کا ٹھکانہ ہے اور نہ ہی علاج معالجہ اور زندگی کی بنیادی سہولیات ییں۔
بابر بلوچ پناہ گزینوں کے عالمی ادارے UNHCR کے افغانستان کی انسانی بنیادوں پر مدد کی کوششوں کے کو آرڈینیٹر یا رابطہ کار ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت توجہ افغانستان کے اندر مرکوز ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی 40 ملیں آبادی کے اس ملک میں 35 لاکھ سے زیادہ لوگ اندرونی طور پر بے گھر ہو چکے ہیں۔ اور افغانستان کی آدھی آبادی ایسی ہے جسے امداد کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ قحط سالی کی صورت حال اور کرونا کی تباہ کاریوں نے وہاں ایسے حالات پیدا کردیے ہیں کہ اگر فوری امداد نہ کی گئی تو بڑا انسانی المیہ رونما ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا ادارہ پاکستان کے تعاون سے زیادہ تر امداد زمینی راستوں سے افغانستان بھیج رہا ہے۔
امریکہ کے تین سابق صدور افغان پناہ گزینوں کی امداد کے لئے سرگرم
بابر بلوچ نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے مجموعی طور ہر 600 ملین امریکی ڈالرز کی اپیل کی گئی تھی جو فوری طور پر درکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنیوا کانفرنس میں تقریباً ایک ارب ڈالر دینے کے وعدے کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ وعدے فوری طور ہر پورے ہونے چاہئیں تاکہ افغان باشندوں کو بھوک اور افلاس سے بچایا جائے اور ان افغان بچوں کو ،جو ناقص غذائیت کا شکار ہونے کے سبب موت کے دہانے ہر کھڑے ہیں، زندگی کی نوید دی جا سکے۔
اس سوال کے جواب میں کہ امداد پہنچانے میں افغانستان کے اندر انہیں کسی رکاوٹ کا سامنا تو نہیں کرنا پڑتا، انہوں نے کہا کہ صورت حال بہت غیر یقینی اور چیلنج والی ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ اب تک تو طالبان یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والے اداروں کی مدد کریں گے، اور انہیں عام لوگوں تک رسائی دیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تعاون سے جب ہم امدادی سامان سرحد پار پہنچاتے ہیں تو دوسری جانب یہ سامان ہم اب تک طالبان کی مدد سے پہنچانے میں کامیاب رہے ہیں، لیکن وہاں لوگوں کی ضروریات بہت زیادہ ہیں۔
بابر بلوچ نے کہا کہ امداد زمینی راستوں اور ضرورت ہو تو فضائی راستوں سے بھی پہنچائی جا رہی ہے اور اسلام آباد سے کابل اور افغانستان کے دوسرے شہروں کے لئے ایک لاجسٹک لنک بھی قائم کیا گیا ہے۔ تاکہ بوقت ضرورت فضائی راستے بھی استعمال کیے جا سکیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت انسانی ہمدردی سے متعلق اقوام متحدہ کے سب ادارے سرگرم عمل ہیں اور سب کی کوشش یہی ہے کی افغان باشندوں کی جان اور مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ اور ان کی روز مرہ زندگی کی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں۔
کوئٹہ آنے والے افغان پناہ گزین کس حال میں ہیں؟
ادھر پاکستان انٹرنیشنل ایر لائینز یا PIA کے مارکیٹنگ اور کارپوریٹ کمیونیکیشن کے شعبے کے سربراہ عبداللہ ایچ خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کا ادارہ امدادی سامان افغانستان پہنچانے اور افغانستان سے نکلنے والے لوگوں کے انخلاء کے کام میں بھرپور تعاون کرہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ورلڈ فوڈ پروگرام نے رابطہ کیا تھا اور ہمارا جہاز ان کا امدادی سامان لے کر، جس میں ادویات وغیرہ بھی تھیں، مزار شریف گیا اور سامان وہاں پہنچایا۔ اور وہ یا کوئی بھی بین الاقوامی ادارہ ہمارا تعاون چاہے گا تو اسے بھرپور تعاون دیا جائے گا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پی آئی اے، اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے انخلاء پر بھی کام کر رہی ہے جو افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں آٹھ پروازوں کے ذدیعے 1600 افراد کا انخلا کیا گیا۔
عبداللہ خان نے مزید کہا کہ ان کا ادارہ انسانی بنیادوں پر کام کے ساتھ یہ کوشش بھی کر رہا ہے کہ پوری دنیا کے ساتھ افغانستان کا فضائی رابطہ بحال ہو سکے۔
افغان عملیت پسندوں اور سخت گیر سوچ رکھنے والوں میںں رسہ کشی
گزشتہ ہفتے طالبان نے سخت گیر سوچ کی حامل کابینہ تشکیل دینے کا اعلان کیا، جس میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جو 90 کی دہائی کی سخت گیر حکمرانی سے وابستہ رہ چکے ہیں، جب کہ حالیہ دنوں کے دوران طالبان سب کی شراکت پر مبنی حکمرانی کی بدلی ہوئی سوچ پر مبنی دعوے کرتے رہے ہیں۔
دو افغان جو اقتدار کی اندرونی کشمکش کے ماحول سے واقف ہیں، کہتے ہیں کہ کابینہ کے اعلان کے بعد عملیت پسند اور نظریاتی خیالات کے ہمنوا طالبان کے درمیان رشہ کشی دکھائی دی۔
بتایا جاتا ہے کہ پردے کے پیچھے یہ کشمکش جاری ہے۔ لیکن فوری طور پر یہ افواہیں گردش کرتی رہیں کہ قصر صدارت میں دو قسم کی سوچ رکھنے والے طالبان کے مابین حالیہ دنوں شدید محاذ آرائی سامنے آئی، جن میں یہ دعویٰ بھی شامل تھا کہ عملیت پسند راہنما، عبد الغنی برادر ہلاک ہو گئے ہیں۔
یہ افواہیں اتنی شدت سے پھیلیں کہ ملا برادر نے ایک آڈیو ریکارڈنگ اور تحریری بیان جاری کیا، جس میں ان دعوؤں کو مسترد کیا گیا۔ پھر بدھ کے روز برادر ملک کے قومی ٹیلی ویژن پر انٹرویو دیتے ہوئے نظر آئے۔
افواہ کے بارے میں ملا برادر نے کہا کہ ''میں کابل سے باہر سفر پر تھا، اس لیے میری رسائی ذرائع ابلاغ تک نہیں تھی کہ میں اس خبر کو مسترد کرتا''۔
طالبان اور امریکہ کے مابین مذاکرات کے دوران برادر طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ رہ چکے ہیں، جس بات چیت کے نتیجے میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کی راہ ہموار ہوئی اور اگست کے اواخر میں مکمل کیا گیا، جس سے دو ہفتے قبل طالبان نے دارالحکومت کابل پر قبضہ کیا۔
امریکہ طالبان پر عائد پابندیاں نہیں ہٹائے گا: وزیرِ خارجہ بلنکن
ملک کا اقتدار سنبھالنے کے بعد برادر طالبان کے وہ پہلے سینئر اہل کار ہیں جنھوں نے سب کی شمولیت والی حکومت کے امکان کا یقین دلایا، لیکن گزشتہ ہفتے طالبان مردوں ہی پر مشتمل کابینہ کی تشکیل کے بعد اس سلسلے میں تمام امیدوں پر پانی پھر گیا۔
سخت گیر طالبان کی زور آوری کا اس وقت مزید یقین ہوا جب قصر صدارت پر افغان قومی پرچم کی جگہ سفید رنگ کا طالبان کا جھنڈا لہرایا گیا۔
طالبان کے ایک اہل کار نے بتایا کہ قیادت نے ابھی پرچم سے متعلق حتمی فیصلہ نہیں کیا، جب کہ متعدد حضرات کی سوچ یہی دکھائی دیتی ہے کہ دونوں پرچم ایک ساتھ لہرائے جائیں گے۔ انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بات بتائی، چونکہ انھیں میڈیا کے ساتھ داخلی گفت و شنید عام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
دو افغان ذرائع نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی ہے، جن کے تحفظ کی خاطر ان کا نام صیغہ راز میں رکھا گیا ہے، جنھوں نے کابینہ کی تشکیل سے متعلق اختلاف رائے کے بارے میں بتایا۔ انھوں نے کہا کہ کابینہ کے ایک وزیر نے اپنا قلم دان قبول کرنے سے انکار کیا، چونکہ انھیں حکومت میں صرف طالبان ہی کی شمولیت پر اعتراض تھا، جس کی وجہ سے ملک کی نسلی اور مذھبی اقلیتوں کو نمائندگی نہیں مل سکی۔
طالبان کے ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے قیادت میں کسی قسم کی دراڑیں پڑنے کی چہ مہ گوئیوں کو مسترد کیا ہے۔ منگل کے روز طالبان کے وزیر خارجہ، امیر خان متقی نے ایسی تمام خبروں کو ''پروپیگنڈا'' قرار دیتے ہوئے مسترد کیا۔
کیا عالمی دباؤ سے افغان طالبان پر کوئی اثر پڑے گا؟
یہ بات نوٹ کی گئی تھی کہ اہم سیاسی تقریبات میں برادر موجود دکھائی نہیں دیتے۔ مثال کے طور پر اس ہفتے قصر صدارت میں ہونے و الی تقریب میں برادر موجود نہیں جس میں قطر کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبد الرحمٰن الثانی کو خوش آمدید کہا گیا،جو طالبان کی جانب سے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک کا دورہ کرنے والے پہلے اعلیٰ سطحی غیر ملکی راہنما تھے۔ برادر کی عدم موجودگی اس لیے خاص طور پر نوٹ کی گئی چونکہ وہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کی میزبانی کے فرائض انجام دیتے رہے تھے۔
لیکن کل سامنے آنے والے انٹرویو میں برادر نے بتایا کہ وہ اجلاس میں شریک نہیں ہوئے چونکہ انھیں قطری وزیر خارجہ کے دورہ کابل کا علم نہیں تھا۔ برادر کے بقول، ''میں اس سے پہلے کابل سے باہر سفر پر تھا اور جلد واپس نہیں آ سکتا تھا''۔
برادر سے مستقل رابطےمیں رہنے والے متعدد اہل کاروں نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ وہ ملک کے جنوب مغرب میں واقع صوبائی دارالحکومت، قندھار میں تھے جہاں ان کی ملاقات طالبان لیڈر ہبت اللہ اخونزادہ سے طے تھی۔ ایک اور طالبان شخص نے بتایا کہ وہ اپنے اہل خانہ سے ملنے گئے تھے جن سے وہ گزشتہ 20 سال کے دوران نہیں مل پائے تھے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت سوچ کا یہ فرق طالبان کے لیے زیادہ مشکل پیدا کرنے کا باعث نہیں ہو گا۔
واشنگٹن میں قائم ولسن سینٹر میں ایشیا پروگرام کے معاون سربراہ، مائیکل کوگلمین نے کہا ہے کہ ''ہم گزشتہ برسوں کے دوران ملاحظہ کر چکے ہیں کہ تنازعات کے باوجود طالبان زیادہ تر ہم آہنگ ادارے کے طور پر کام کرتے ہیں؛ اور اہم فیصلوں کے دوران کوئی خاص اختلاف ان کے آڑے نہیں آتا''۔
بقول ان کے، ''میرے خیال میں وہ داخلی اختلاف رائے سے نمٹ لیں گے۔ تاہم، جب وہ اپنے اقتدار کو مضبوط کریں گے، اپنی قانونی حکمرانی منوائیں گے اور اہم پالیسی چیلنجوں سے نبردآزما ہوں گے، اس وقت ان پر بہت سارا دباؤ آ سکتا ہے۔ اگر یہ کوششیں ناکام ہوتی ہیں تو دباؤ کی شکار تنظیم کے طور پر اندرونی کھینچا تانی بڑھ بھی سکتی ہے''۔
تاہم، طالبان کو درپیش اس تقسیم کو مٹانا ایک مشکل امر ہو گا، جس کے لیے گروپ کے بانی ملا عمرجیسا سخت گیرحکمراں درکار ہو گا، جو اپنے لیے غیر مشروط وفاداری پر عمل درآمد کرایاکرتا تھا۔
(اس خبر میں فراہم کردہ معلومات ایسوسی ایٹیڈ پریس سے لی گئی ہیں )
کیا افغانستان کے لیے سی پیک اہمیت کا حامل ہے؟ تجزیہ کاروں کی رائے
سی پیک کے لئے افغانستان کی اہمیت اس لحاظ سے بہت زیادہ ہے کہ اس کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ وسطی ایشیاء میں داخلے کا دروازہ ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ چین اور پاکستان دونوں کی جانب سے اسے سی پیک میں لانے کی کوششیں جاری ہیں۔ خاص طور پر ایسے میں جب افغانستان کے حالات بدل چکے ہیں اور ان بدلے ہوئے حالات میں طالبان کو بدحال معیشت کو سنبھالنے اور زر مبادلہ کی حالت بہتر بنانے کے لئے مالی مدد کی ضرورت ہے۔
افغانستان کی سی پیک میں شمولیت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کی پارلیمانی کمیٹی برائے سی پیک کے سربراہ ارباب شیر علی نے کہا کہ افغانستان کی معشیت کا انحصار امداد پرتھا اور ایسے میں جب اسے عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے کوئی مدد نہیں مل رہی ہے، نہ مغربی ملکوں میں اسکے منجمد فنڈز ریلیز کئے جا رہے ہیں وہ اپنی بقا کے لئے کسی بھی ایسے ملک یا ملکوں کے ساتھ آگے چلنے کے لئے آمادہ ہوگا جو اس مشکل صورت حال سے نکلنے میں اسکی مدد کریں۔ دوسری جانب،چین یہ چاہے گا کہ افغانستان 'بیلٹ اینڈ روڈ' منصوبے میں اسکا پارٹنر بنے۔ یعنی دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔
بقول ارباب شیر علی، آج کی دنیا 'جیو اکانامکس' کی دنیا ہے؛ اور جو بھی ملک چاہے وہ چین ہو یا روس یا کوئی اور ملک جو اسے اس مرحلے پر سہارا دے گا وہ اس کے ساتھ جائیگا۔
انکا کہنا تھا کہ پاکستان کی پہلے بھی خواہش تھی کہ افغانستان سی پیک کا حصہ بنے اور وہ اب بھی اس کے لئے کوشاں ہے اور اپنے طور پر اقدامات بھی کر رہا ہے۔ اور وہ سمجھتا ہے کہ مستحکم افغانستان خطے میں خاص طور پر وسط ایشیائی خطے میں تجارت اور معاشی سرگرمیوں کے لئے بہت اہم ہے۔
پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں گوادر کا کردار کتنا اہم؟
اس سوال کے جواب میں کہ کیا چین سی پیک میں مزید سرمایہ کاری نہیں کر رہا، ارباب شیر علی نے کہا کہ ایسا نہیں ہے۔ البتہ، سیکیورٹی کے حوالے سے کچھ مسائل تھے، جن پر حکومتی سطح پر کام ہو رہا ہے۔
ڈاکٹر ایوب مہر ہاکستان کے ایک ممتاز ماہر معاشیات اور اکنامک کوآپریشن کونسل یا 'ای سی او چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری' کے معاشی مشیر ہیں۔ سی ہیک کے لئے افغانستان کی اہمیت کے بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ای سی او ملکوں کی تعداد بنیادی طور پر گیارہ ہے۔ اور ان میں افغانستان کی سینٹرل لوکیشن بنتی ہے۔ اور ان گیارہ ملکوں کے ساتھ اگر چین اور منگولیا کو بھی شامل کرلیا جائے تو ان سب کے لئے افغانستان مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔
بقول ان کے، سی پیک چین اور پاکستان کا منصوبہ ہے لیکن یہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ یا 'بی آر آئی' منصوبے کا بھی ایک حصہ ہے۔ اس بی آر آئی کے تین روٹس ہیں۔ ان میں سےایک ملیشیا سے شروع ہو کر ترکی تک جاتا ہے۔ یہ سدرن روٹ کہلاتا ہے۔
یہ روٹ جب چین کے شہر کاشغر پہنچتا ہے تو وہاں وہ ایک روٹ سے ملتا ہے جسے سی پیک کہا جاتا ہے۔ یہ کاشغر سے شروع ہو کر تاجکستان اور کرغزستان سے ہوتا ہوا پاکستان تک آجاتا ہے۔ لیکن اس روٹ کی صحیح معنوں میں افادیت اسی وقت ہو سکتی ہے جب دو لینڈ لاک ممالک ترکمانستان اور ازبکستان بھی اسکے دائرہ کار میں آجائیں۔ لیکن، سی پیک کو ترکمنستان اور ازبکستان کے ساتھ اسوقت تک نہیں جوڑا جاسکتا جب تک کہ افغانستان سی پیک سے نہ جڑ جائے۔
کیونکہ افغانستان کے مغرب میں ترکمنستان اور ازبکستان اور مشرق میں پاکستان ہے؛ اس لحاظ سے سی پیک کے لئے افغانستان کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔
کیا افغانستان کے لیے سی پیک اہمیت کا حامل ہے؟ تجزیہ کاروں کی آرا
ڈاکٹر ایوب مہر نے کہا کہ سی پیک اس وقت تک مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتا جب تک ازبکستان جو ایک بڑی آبادی والا ملک ہے اور ترکمنستان جو ایک صنعتی اور دولتمند ملک ہے، اس میں شامل نہ ہوں، جہاں کاروبار اور سرمایہ کاری کے بھاری مواقع ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں یہ تاثر درست نہیں کہ چین سی پیک کے دوسرے مرحلے میں سرمایہ کاری میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا۔ تاہم، یہ بات درست ہے کہ سیکیورٹی کے حوالے سے اسکے تحفظات یقیناً ہونگے جو حکومتی سطح ہر زیر غور آ سکتے ہیں۔