طالبان پر خاتون پولیس آفیسر کو گولی مار کر ہلاک کرنے کا الزام
طالبان پر الزام ہے کہ انہوں نے صوبے غور میں ایک افغان خاتون پولیس افسر کو گولی مار کر ہلاک کردیا ہے، جبکہ وہ ماں بننے والی تھیں۔
صوبہ غور کے دارالحکومت فیروز کوہ میں اس خاتون کو اس کے گھر میں اس کے عزیزوں کے سامنے گولی ماری گئی۔ عینی شاہدین نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ پولیس افسر ماں بننے والی تھیں۔
حسن حکیمی نے جو سول سوسائٹی کے ایک سرگرم کارکن ہیں اور بیرونِ ملک مقیم ہیں، جرمنی کی خبر رساں ایجنسی، ڈی پی اے کو بتایا کہ نگار کو اس کے شوہر اور بیٹے کے سامنے ہلاک کیا گیا۔
حکیمی کا کہنا تھا کہ، "ہم ان خواتین کے لئے فکر مند ہیں جو پولیس کے لئے کام کرتی تھیں، سیف ہاؤس میں اور خواتین کے ڈائریکٹوریٹ میں۔" انہوں نے مزید کہا کہ طالبان انہیں کئی مرتبہ خبردار کر چکے ہیں۔
طالبان نے اس واقعے میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس کی چھان بین کر رہے ہیں۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا،"ہم اس واقعے سے آگاہ ہیں اور میں تصدیق کرتا ہوں کہ طالبان نے اسے نہیں مارا۔ ہماری چھان بین جاری ہے۔ "
انہوں نے مزید کہا کہ طالبان نے پہلی حکومت میں کام کرنے والوں کے لئے عام معافی کا اعلان کر رکھا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ نگار کا قتل کسی ذاتی دشمنی یا کسی اور وجہ سے ہوا ہے۔
اس واقعے کی تفصیلات اب بھی واضح نہیں ہیں۔ تاہم، بی بی سی کے مطابق تین ذرائع نے بتایا ہے کہ طالبان نے ہفتے کے روز نگار کو مارا پیٹا اور شوہر اور بچوں کے سامنے گولی ماردی۔
گزشتہ ماہ کابل پر قبضے کے بعد طالبان لیڈر کہہ چکے ہیں کہ وہ اسلامی قانون کے مطابق خواتین کے حقوق کا احترام کریں گے۔
تاہم، ملک میں خواتین پر جبر کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔
1996 سے 2001 تک اپنے دورِ حکومت میں طالبان نے خواتین کو کام سے روک دیا تھا، لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت نہیں تھی اور خواتین کے لئے ضروری تھا کہ وہ گھر سے باہر جاتے ہوئے برقعہ پہنیں اور کسی محرم کو ساتھ لے کر جائیں۔
گزشتہ چند روز کے دوران افغان خواتین نے کابل اور ہرات میں کئی مقامات پر احتجاج کیا ہے اور خواتین کے لئے برابری، انصاف اور جمہوریت کا مطالبہ کیا ہے۔
چار ستمبر کو طالبان نے مساوی حقوق کا مطالبہ کرنے والی خواتین کے ایک مظاہرے کو زبردستی ختم کروا دیا۔
چار امریکی شہریوں نے زمینی راستے سے افغانستان چھوڑ دیا
پیر کے روز امریکی محکمہ خارجہ کےایک عہدے دار نے بتایا کہ مزید چار امریکی شہری زمینی راستے کے ذریعے اس کے باوجود افغانستان سے بحفاظت نکل گئے ہیں کہ طالبان نے، جن کا اس وقت افغانستان پر کنٹرول ہے، مزید امریکیوں اور امریکی فورسز کے لیے کام کرنے والے افغان شہریوں کو ملک سے باہر لے جانے کی پروازیں روک دی ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ طالبان نے ان چار امریکیوں کا راستہ نہیں روکا اور وہ ان کی روانگی سے بھی آگاہ تھے۔
عہدے دار نے اس بارے میں اعلان امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کے قطر کے صدر مقام دوحہ پہنچنے سے تھوڑی دیر پہلے کیا۔
بلنکن قطر کے عہدے داروں کا شکریہ ادا کرنے وہاں گئے ہیں، اس خلیجی ملک نے اگست کے آخر میں کابل سے بحفاظت طیاروں کے ذریعے سے انخلا کرنے والے ہزاروں امریکیوں اور افغان شہریوں کے لئے پہلے اسٹاپ کے طور پر کام کرنے میں بھرپور معاونت کی ہے۔
عہدےدار نے کہا کہ ہم نے چار امریکیوں کی زمینی راستے سے بحفاظت روانگی میں سہولت پیدا کی اور افغان سرحد عبور کرنے کے بعد سفارتی عملے نے ان چاروں کا خیر مقدم کیا۔
افغانستان سے تمام امریکی شہریوں کو نکالنے کےعہد پر قائم ہیں، وائٹ ہاؤس
لیکن عہدے دار نے یہ نہیں بتایا کہ امریکی محکمہ خارجہ نے خشکی کے راستے اس پہلے انخلا میں ان امریکیوں کو کس ملک میں منتقل کیا تھا، کیونکہ افغانستان کی سرحدیں ایران، ترکمانستان، از بکستان، تاجکستان اور پاکستان سے ملتی ہیں۔
قطر میں قیام کے بعد بلنکن گزشتہ ہفتے افغانستان میں لگ بھگ دو عشروں پر محیط جنگ کے خاتمے کے بعد اپنے ایک اہم اتحادی جرمنی کا دورہ کریں گے۔
اتوار کی رات بلنکن نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ دوحہ، قطر اور رامینسٹائن، جرمنی جاتے ہوئے مجھے قطر اور جرمنی کے دوستوں کی اس بھرپور مدد کا ذاتی طور پر شکریہ ادا کرنے کا موقع ملے گا جو انہوں نے امریکی شہریوں، افغان شہریوں اور افغانستان سےانخلا کرنے والے دوسرے لوگوں کی بحفاظت منتقلی میں فراہم کی۔
بلنکن نے کہا کہ امریکہ افغانستان سے نکلنے کے ہر خواہش مند امریکی، اور خصوصی امیگرنٹ ویزے کےامیدواروں اور ان افغان باشندوں کی مدد کے لیے پرعزم ہے جنہوں نے امریکہ کی افغانستان میں 20 سال کی جنگ کے دوران مدد کی۔
بائیڈن انتظامیہ کو 15 اگست کو کابل پر طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد افغانستان سے انخلا سے نمٹنے کے انداز پر ری پبلکن قانون سازوں، انسانی حقوق کے گروپس اور دوسروں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔
نئی نویلی دلہن کو افغانستان سے لانے میں ناکام ہونے والا افغان امریکی
بلنکن نے یہ بھِی کہا کہ وہ بدھ کے روز جرمن وزیر خارجہ ہیکو ماس کے ہمراہ افغانستان پر 20 ملکوں کے وزرا کے ایک ورچوئل اجلاس کی سربراہی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان 20 ملکوں نے افغان شہریوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے، ان کی دوبارہ آبادکاری اور طالبان کو اپنے وعدوں کی پاسداری پر پابند کرنے میں مدد کی ہے۔
طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان افغان باشندوں اور دوسروں کو ملک سے باہر جانے کا محفوظ راستہ فراہم کریں گے جو افغانستان چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن بہت سے افغان شہریوں کو ان کے وعدوں کے مستند ہونے پر شکوک و شبہات ہیں۔
افغانستان میں عہدے داروں نے کہا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کی امکانی طور پر چار پروازوں کو شمالی شہر مزار شریف کے ہوائی اڈے سے روانگی کو روک دیا گیا ہے، جب کہ امریکی کانگریس مین مائیکل میک کول نے فاکس نیوز سنڈے شو میں کہا کہ چھ طیاروں کو روکا گیا ہے جن کے ذریعے پرواز کرنے والوں میں کچھ امریکی شہری بھی شامل تھے۔
جمعے کے روز بلنکن نے افغانستان سے امریکی انخلا کا ایک بار پھر یہ کہتے ہوئے دفاع کیا کہ اب وہاں امریکیوں کی نسبتاً ایک تھوڑی سی تعداد باقی رہ گئی ہے اور امریکی محکمہ خارجہ ان سب کے ساتھ فعال رابطے میں ہے۔
وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف ران کلین نے اتوار کر سی این این کو بتایا کہ لگ بھگ ایک سو امریکی افغانستان میں باقی رہ گئے ہیں لیکن میک کول نے کہا کہ سینکڑوں امریکی ابھی تک وہاں موجود ہیں۔
کابل کے صدارتی محل کے پاس خواتین کا اپنے حقوق کے لیے مظاہرہ
افغان خواتین کے ایک چھوٹے گروپ نے جمعہ کو کابل میں صدارتی محل کے قریب احتجاج کیا، انہوں نے طالبان سے ایک ایسے موقع پر مساوی حقوق کا مطالبہ کیا جب افغانستان کے نئے حکمران حکومت سازی اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
کابل میں یہ احتجاج کئی دنوں میں خواتین کا دوسرا احتجاج تھا، اس سے قبل ایک احتجاج مغربی شہر ہرات میں ہوا تھا۔ تقریباً 20 خواتین مائیکروفون کے ساتھ مسلح طالبان کے سامنے جمع ہوئیں، جنہوں نے مظاہرے کو آگے بڑھنے دیا۔
خواتین نے تعلیم تک رسائی، کام پر واپس آنے کے حق اور ملک کی حکمرانی میں کردار کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے جو کارڈ اٹھا رکھے تھے ان میں سے ایک پر لکھا تھا "آزادی ہمارا نصب العین ہے۔ ہمیں اس پر فخر ہے"۔
ایک موقع پر ایک جنگجو طالب ہجوم میں گھس گیا، لیکن عینی شاہدین نے بتایا کہ وہ ان لوگوں پر برہم تھا جو مظاہرے کو دیکھنے کے لیے رک گئے تھے نہ کہ مظاہرین پر۔
طالبان نے کہا ہے کہ خواتین اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں گی اور گھر سے باہر کام کر سکیں گی، جب عسکریت پسند آخری بار اقتدار میں تھے تو خواتین کو حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا۔ لیکن طالبان نے یہ عزم بھی ظاہر کیا ہے کہ وہ شریعت، یا اسلامی قانون نافذ کریں گے، لیکن تفصیلات نہیں دیں۔
طالبان کے لیے ممکنہ طور پر بحران میں گھری ہوئی معیشت زیادہ پریشانی کا باعث ہے، جو بحران میں مبتلا ہے۔ سرکاری ملازمین کو کئی مہینوں سے ادائیگی نہیں کی گئی، اے ٹی ایم مشینوں کو بند کر دیا گیا ہے اور بینک ہفتے میں 200 ڈالر تک رقم نکالنے کی پابندی لگا رہے ہیں، جس کی وجہ سے بینکوں کے باہر بڑے ہجوم بن گئے ہیں۔ ملک میں شدید خشک سالی ہے اور امدادی گروپوں نے بڑے پیمانے پر بھوک کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔
'افغان خواتین کام کر سکتی ہیں لیکن انہیں وزارت ملنے کا امکان نہیں'
طالبان نے کہا ہے کہ ویسٹرن یونین سے رقوم کی منتقلی دوبارہ شروع ہو جائے گی، جس نے عسکریت پسندوں کے گزشتہ ماہ کابل میں داخل ہونے کے بعد اپنی سروس بند کر دی تھی۔ اس سے افغان شہریوں کو بیرون ملک مقیم اپنے رشتہ داروں سے نقد رقوم وصول کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ لیکن افغانستان کے بیشتر غیر ملکی ذخائر بیرون ملک موجود ہیں اور منجمد ہیں جب کہ مغربی ممالک یہ غور کر رہے ہیں کہ طالبان کے ساتھ کس طرح کے روابط رکھے جائیں، جس سے مقامی کرنسی پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ویسٹرن یونین کی جانب سے سروس کی بحالی کے متعلق فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
طالبان کا کہنا ہے کہ وہ تمام ممالک حتیٰ کہ امریکہ کے ساتھ بھی اچھے تعلقات چاہتے ہیں اور انہوں نے خلیجی ملک قطر میں حالیہ دنوں میں غیر ملکی ایلچیوں کے ساتھ کئی ملاقاتیں کیں، جہاں انہوں نے طویل عرصے سے اپنا سیاسی دفتر قائم کررکھا ہے۔
طالبان کے ثقافتی کمشن کے ترجمان احمد اللہ متقی نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات کے ایک سینئر عہدیدار، جس کا نام نہیں بتایا گیا، طالبان حکام سے ملاقات کے لیے جمعہ کے روز پرواز سے کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پہنچے۔ افغانستان کے طلوع ٹی وی نے رپورٹ کیا کہ طیارے میں 60 ٹن خوراک اور طبی امداد بھی تھی۔
قطر میں مقیم ایک سینئر طالبان عہدیدار شیر محمد ستانکزئی نے حال ہی میں برطانوی اور جرمن وفود سے ملاقات کی۔ ان کے مطابق ایک اور عہدے دار عبدالسلام حنفی نے چین کے نائب وزیر خارجہ وو جیانگ ہاؤ سے ٹیلی فون پر بات کی۔
15 اگست کو طالبان کے کابل میں داخل ہونے کے بعد بیشتر مغربی سفارت خانے خالی اور بند کر دیے گئے تھے۔ طالبان نے سفارتکاروں کی واپسی پر زور دیا ہے۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے حکام نے افغانستان کی آزاد سول ایوی ایشن انتظامیہ سے ملاقات کی ہے۔ لیکن ایئرلائن کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے کہا کہ ایئرپورٹ سے ملبے کو صاف کرنے اور معمول کا کام بحال کرنے میں "کچھ وقت" لگے گا۔
انہوں نے کہا، "بین الاقوامی پروازوں کے ہوائی اڈے پر آنے سے پہلے ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔"
طالبان کو ایک بڑا معاشی چیلنج درپیش ہے
افغانستان کی معاشی حالت جو پہلے ہی اس کے باوجود بہت خراب تھی کہ اسے مغربی ملکوں خاص طور پر امریکہ سے بھاری مدد ملتی تھی، اب مزید خراب ہوگئی ہے اور طالبان کی جانب سے ملک کا کنٹرول سنبھالے جانے کے بعد امداد کا سلسلہ منقطع ہونے کے سبب وہاں معاشی حالات اور بھی خراب ہوتے جارہے ہیں۔
اکثر ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ طالبان کو ایک ایسی بند گلی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے جہاں انکے پاس متبادل راستے بالکل ختم ہو جائیں اور ایک ایسا خلا پیدا ہو جائے جسے پر کرنے کے لئے چین اور روس جیسے ممالک آگے آئیں اور مغرب کا تعلق افغانستان سے بالکل محدود ہو کر رہ جائے۔
ڈاکٹر اشفاق حسن ممتاز ماہر معاشیات اور پاکستان کے سابق مشیر خزانہ ہیں۔ افغان معیشت کے حوالے سے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت طالبان ایک عبوری دور سے گزر رہے ہیں اور افغانستان کے لئے یہ بڑے چیلنجوں کا دور ہے۔
کیا طالبان بیرونی امداد کے بغیر افغان معیشت کو چلا پائیں گے؟
انہوں نے کہا کہ افغانستان کا کچھ تو ریزرو اس کے سینٹرل بنک کے پاس ہے، جس سے وہ اپنا کام چلا رہے ہیں، جبکہ نو ارب ڈالر کے قریب ان کی رقوم ایک مغربی ملک کے بنکوں میں منجمد کر دی گئی ہیں۔ عالمی بنک نے بھی نہ صرف یہ کہ افغانستان کے لئے کووڈ ریلیف کی مد میں منظور کی گئی رقم اسے ابھی تک نہیں دی ہے جو ساری دنیا کو دی جارہی ہے، بلکہ اس کی فنڈنگ بھی ابھی رکی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا کہ اس طرح ایک خلاء پیدا ہو رہا ہے، جسے پر کرنے کے لئے وہ ملک آگے آئیں گے جو نہیں چاہتے کہ مغربی ممالک کا اس خطے میں کوئی عمل دخل باقی رہے۔ انہوں نے کہا اب ہو گا یہ کہ چین اور روس جیسے ملک آگے آئیں گے اور چین کے پاس کیش کی کمی نہیں ہے جو وہ طالبان کی بننے والی حکومت کو دیگا اور اپنی ساکھ بنائے گا۔
انہوں نے کہا وہ سمجھتے ہیں کہ آئندہ چھہ ماہ کے بعد جب طالبان اپنے قدم جما لیں گے تو دنیا دیکھے گی کہ سی پیک افغانستان کے راستے وسطی ایشیاء تک وسعت پائے گا اور افغانستان جنوب اور وسطی ایشیاء کے لئے ایک گیٹ وے بن جائے گا۔ وسطی ایشیاء میں انرجی کے قدرتی وسائل ہیں جبکہ جنوبی ایشیاء کو انرجی کی ضرورت ہے اور یہ تجارت افغانستان کے راستے ہو گی جس سے اس کو بہت فائدہ ہو گا اور یہ موقع اسے خود مغرب فراہم کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مغربی ملکوں کے پالیسی سازوں کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ تعاون کرکے طالبان کا اعتماد حاصل کریں اور خطے میں اپنی موجودگی برقرار رکھیں، ورنہ، بقول انکے، وہ گیم سے بالکل باہر ہو جائیں گے۔
شاہد جاوید برکی ورلڈ بنک کے ایک سابق عہدیدار ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مغرب میں افغانستان کی رقوم منجمد کرنے کے سبب ان کی مشکلات شدید ہوگئی ہیں۔
طالبان کو ایک بڑا معاشی چیلنج درپیش ہے، ماہرین معیشت
انہوں نے کہا کہ یونیسیف نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر افغانستان کو اس کی وہ رقوم نہیں دی گئیں، جو منجمد کر دی گئی ہیں، تو بہت نقصان ہو گا، کیونکہ وہاں حالت یہ ہے کہ ان کے پاس خوراک اور ادویات تک کی خریداری کے لئے پیسے نہیں ہیں۔
شاہد جاوید برکی نے کہا کہ افغانستان کے پاس بھاری قدرتی وسائل موجود ہیں اور چین جیسے ملک ان سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ روس مالی طور پر اتنا مضبوط نہیں ہے کہ وہ، بقول ان کے، افغانستان کی کوئی مدد کرسکے؛ لیکن وہ عسکری تربیت اور مدد فراہم کر سکتا ہے، مالی مدد اور افغانستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے چین واحد ملک ہے جو مدد دے سکتا ہے؛ اور مغربی ملکوں کی بے رخی اسے افغانستان میں قدم جمانے میں مدد دے سکتی ہے۔
مغربی ملکوں کا خیال ہے کہ طالبان پر یہ دباؤ برقرار رکھنا ضروری ہے کہ وہ انسانی حقوق کی پاسداری اور خواتین اور اقلیتوں کے حقوق اور جمہوریت کے لئے اپنے وعدے پورے کریں۔