خون ریزی بچانے کے لیے ملک چھوڑنے کا مشکل فیصلہ کیا، اشرف غنی
افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے بدھ کے روز کہا ہے کہ وہ پچھلے مہینے ملک چھوڑ کر اس لیے متحدہ عرب امارت چلے گئے تھے تاکہ صدر مقام کابل کی سڑکوں اور گلیوں کو خون ریزی سے بچایا جا سکے، کیونکہ طالبان باغیوں نے قبضہ کر لیا تھا۔
انہوں نے اس الزام سے بھی انکار کیا کہ وہ سرکاری فنڈز لوٹ کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
انہوں نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ "میں نے صدارتی محل کی سیکیورٹی کی جانب سے زور دینے پر ملک چھوڑا، کیونکہ انہوں نے کہا تھا کہ اگر میں بدستور یہاں رہتا ہوں تو گلی گلی میں لڑائی کی وہ ہولناک صورت حال پیدا ہو جائے گی، جس سے یہ شہر 1990 کے عشرے کی خانہ جنگی سے گزر چکا ہے"۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ "کابل کو چھوڑنا میری زندگی کا سب سے مشکل فیصلہ تھا۔ لیکن، میرا خیال ہے کہ یہ بندوقوں کو خاموش رکھنے اور کابل کے 60 لاکھ شہریوں کو بچانے کا واحد طریقہ تھا۔"
72 سالہ غنی نے کہا کہ انہوں نے افغانستان میں ایک جمہوری حکومت کی تشکیل کے لیے 20 سال تک کام کیا ہے، لیکن وہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اس کے استحکام اور خوشحالی کو یقینی بنانے میں ناکام ہو گئے، اور اس کا وہی نتیجہ برآمد ہوا جو عشروں سے دوسری افغان حکومتوں کا نکلتا رہا ہے۔
اشرف غنی کی روانگی کا علم ان کے قریبی ساتھیوں کو بھی نہیں تھا: رپورٹ
متحدہ عرب امارات نے اشرف غنی کا انسانی بنیادوں پر اپنے ہاں خیرمقدم کیا ہے۔
غنی نے کہا کہ وہ مستقبل قریب میں 15 اگست کو اپنی غیر متوقع اور اچانک روانگی کے متعلق مزید وضاحت پیش کریں گے۔ لیکن، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت وہ ان بے بنیاد الزامات کی درستگی چاہتے ہیں کہ میں کابل چھوڑتے وقت افغان عوام کے لاکھوں ڈالر بھی اپنے ساتھ لے گیا"۔
روس کے خبر رساں ادارے آر آئی اے نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ اشرف غنی کابل سے چار کاروں اور نقدی سے بھرے ایک ہیلی کاپٹر کے ساتھ رخصت ہوئے اور اپنے پیچھے وہ رقم چھوڑ گئے جو وہ ساتھ نہیں لے جا سکتے تھے۔
کئی دوسری نیوز ایجنسیوں نے اپنی رپورٹس میں کہا ہے کہ وہ مبینہ طور پر سرکاری خزانے سے 169 ملین ڈالر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ تاجکستان میں افغانستان کے سفیر نے بھی ان پر یہی الزام لگایا تھا۔
اشرف غنی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ الزامات کلی اور قطعی طور پر بے بنیاد ہیں۔
افغانستان میں 35 لاکھ لوگ اندرونی طور پر بے گھر ہوئے ہیں: اقوامِ متحدہ
انہوں نے کہا کہ وہ اور ان کی اہلیہ اپنے ذاتی مالی معاملات میں ہمیشہ بااصول رہے ہیں اور یہ کہ وہ عوامی سطح پر اپنے تمام اثاثے ظاہر کر چکے ہیں۔ غنی نے کہا کہ وہ اقوام متحدہ یا کسی دوسرے آزاد آڈٹ کے ذریعے اپنی مالیات کی چھان بین کا خیرمقدم کریں گے۔
افغانستان کے 'طلوع' نیوز چینل نے مقامی وقت کے مطابق بدھ کی رات امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کے انٹرویو کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نشر کیا جس میں ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے صدر غنی کے ملک سے فرار میں مدد کی تھی؟
بلنکن نے اپنے جواب میں کہا کہ فرار ہونے سے ایک رات قبل ہونے والی بات چیت میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ اس وقت تک لڑنے کے لیے تیار ہیں جب تک جان میں جان ہے۔
فیس بک فورم
جرمنی میں افغانستان پر 20 ملکوں کا اعلی سفارتی اجلاس، بلنکن کی شرکت
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن اور جرمن وزیرخارجہ ہائکو ماس بدھ کے روز ساتھیوں کے ایک گروپ اور اتحادیوں کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں، جس کا موضوع افغانستان کی صورت حال ہے۔
رمسٹائین ایئر بیس پر منعقد اس اجلاس میں 20 ممالک شریک ہیں، جن امور پر بات ہو رہی ہے، ان میں طالبان کی جانب سے حکومت سنبھالنے کے علاوہ انسانی ہمدری کی نوعیت کی بنیادی امداد جاری رکھنے کی کوششوں پر غور بھی شامل ہے۔
وزارتی سطح کے اجلاس سے قبل، امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ اس بات کو بھی زیر غور لایا جائے گا کہ آیا طالبان کیے گئے اپنے وعدوں کو وفا کرنے کی بین الاقوامی برادری کی توقعات پر پورے اترنے کی کوشش کریں گے۔
جرمنی آمد سے قبل، قطر کے دورے کے دوران بلنکن نے اس بات کو نمایاں کیا کہ امریکہ اور دیگر ملکوں نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے وعدے پورے کریں اور جس کے پاس سفری دستاویزات موجود ہوں اور وہ افغانستان سے باہر جانے کا خواہش مند ہو انھیں باہر جانے کی سہولت فراہم کی جائے۔
یہ معاملہ تب سے منظر عام پر رہا ہے جب اگست کے اواخر میں امریکہ نے افغانستان سے انخلا مکمل کیا جس کے نتیجے میں افغانستان میں دو عشروں سے جاری فوجی موجودگی ختم ہوئی جب کہ ہزاروں افراد کو خصوصی پروازوں کے ذریعے ملک نے باہر لے جایا گیا۔
تاہم، بہت سے افراد جو افغانستان سے باہر نکلنا چاہتے تھے، وہ امریکی انخلا کی تکمیل سے قبل ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ بدھ کو ہونے والے اس اجلاس میں انسداد دہشت گردی کے معاملات کے علاوہ افغانستان میں بنیادی انسانی حقوق کے امور کی سربلندی کا معاملہ بھی زیر بحث آئے گا۔
کیا طالبان کی کابینہ میں ملک کی تمام قومیتوں اور اقلیتوں کی نمائندگی ہے؟
طالبان نے افغانستان میں اپنی حکومت کی کابینہ کا اعلان کر دیا ہے جسے عبوری کابینہ کا نام دیا گیا ہے۔ کیا اس میں افغانستان میں آباد تمام قومیتوں اور اقلیتوں کی نمائندگی ہے؟ کیا یہ ایک Inclusive حکومت ہے؟ کیا یہ کابینہ ان وعدوں کے مطابق ہے جو طالبان نے عالمی برادری سے کئے تھے؟ یہ اور ایسے بہت سے سوالات افغان امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے پیش نظر ہیں۔
رستم شاہ مہمند افغانستان میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں اور افغان امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے اس اعلان شدہ کابینہ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کابینہ میں ایک دو تاجک اور ازبک ہیں لیکن یہ Inclusive کابینہ بہرحال نہیں ہے۔ اور جو وعدے انہوں نے کئے تھے، کابینہ ان وعدوں کے مطابق نہیں ہے۔
لیکن طالبان کہتے ہیں کہ کہ یہ عبوری کابینہ ہے۔ اس میں اضافہ ہو گا۔ اور نئ کابینہ بنے گی۔ طالبان کا کہنا ہے کہ انہیں وقت دینا ہو گا۔ ان پر سخت دباؤ تھا کہ وہ کابینہ کا اعلان کیوں نہیں کرتے, اس لئے انہوں جلدی میں کابینہ کا اعلان کر دیا ہے۔ اور عجلت میں یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ کن کن اقلیتوں کو کہاں اور کس لیول کی نمائیندگی دی جائے۔
رستم شاہ مہمند کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ خود طالبان کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہو سکا اور ممکن ہے کہ آپس میں کچھ اختلافات بھی ہوں. اس لئے انہیں کچھ وقت دیا جانا چاہئیے.
امریکہ کا طالبان کی عبوری کابینہ پر اظہارِ تشویش، چین افغان حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لیے پرعزم
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگست کے مہینے میں جو کچھ ہوا, طالبان اس کے لئے ذہنی طور پر بقول ان کے تیار نہ تھے کہ وہ اتنی جلدی پورے افغانستان کو شامل کر سکتے، اس لئے ان کو وقت دینا ہو گا۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ اس کابینہ کو دیکھنے کے بعد کیا دنیا ان کے وعدوں پر اعتبار کرے گی? تو ان کا جواب تھا کہ فی الحال نہیں۔ لیکن اگر انہوں نے آگے چل کر ایسی کابینہ بنائی جو پوری طرح نمائندہ ہو اور وہ ڈیلیور کرنا شروع کر دیں اور معیشت کی درستگی کا عمل شروع ہو جائے، تو پھر ان پر بھروسہ نہ کرنے کا کوئی جواز یا بہانہ نہیں رہ جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت افغانستان میں طالبان کو چیلنج کرنے والی کوئی طاقت نہیں ہے اور اس لحاظ سے یہ ان کے لئے ایک موقع بھی ہے اور چیلنج بھی ہے کہ وہ اس موقع کو ضائع نہ کریں۔ ورنہ بصورت دیگر آہستہ آہستہ عوام کا رد عمل آنا شروع ہو جائے گا اور چونکہ معیشت کے مسائل بڑے گمبھیر ہیں، اس لئے ان کے لیے بہت مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ لیکن انہیں حالات کو درست سمت میں ڈالنے کے لئے وقت درکار ہے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ افغانستان میں جو احتجاج ہو رہے ہیں اور طالبان جس طرح ان سے نمبٹ رہے ہیں، کیا وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کی موجودہ جمہوریت کو فروغ حاصل ہو گا تو ان کا جواب تھا کہ اسے اس سیاق و سباق میں دیکھنا چاہئیے کہ اس وقت نہ تو افغانستان میں کوئی پولیس ہے، نہ سول ایڈمنسٹریشن کے لوگ موجود ہیں اور سول انتظامیہ کا پورا نظام درہم برہم ہے۔ اور جو لوگ اس وقت انتظام چلا رہے ہیں ان کی نہ اس سلسلے میں کوئی تربیت ہے نہ انہیں قانون کا پتہ ہے۔ اور چونکہ اس وقت لاء انفورسمنٹ کا افغانستان میں کوئی وجود نہیں ہے، اس لئے یہ صورت حال پیدا ہو رہی ہے جو افسوس ناک ہے۔ لیکن باقاعدہ پولیس فورس کی عدم موجودگی میں غیر تربیت یافتہ رضا کار اس کے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں اس لئے طالبان کو وقت دینا ہو گا۔
کیا طالبان بیرونی امداد کے بغیر افغان معیشت کو چلا پائیں گے؟
ڈاکٹر حسین یاسا جرمنی میں مقیم افغان صحافی اور رائٹر ہیں۔ نئ افغان کابینہ کے بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس کابینہ کو اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو اندازہ ہو گا کہ طالبان نے اپنے مختلف دھڑوں کو نمائندگی دیتے ہوئے ان کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ان کے بقول یہ کسی بھی طور نہ تو پروفیشنل کابینہ ہے نہ Inclusive حکومت نظر آتی ہے۔ اس میں آپ دیکھیں تو حقانی خاندان کے بیک وقت چار وزراء نظر آئیں گے۔ علاوہ ازیں متعدد وزراء وہ ہیں جو اقوام متحدہ کی اس فہرست میں شامل ہیں جن پر تعزیرات عائد ہیں۔
ڈاکٹر یاسا کا کہنا تھا کہ جس طرح خواتین کے احتجاج سے نمٹا گیا یا پنج شیر میں حد سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا گیا، اس سے لگتا ہے کہ طالبان اپنا اصل رنگ دکھانے کے لئے بہت جلدی میں ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ اب دنیا کے ملکوں کا کیا رد عمل ہو گا، ڈاکٹر یاسا نے کہا کہ یوروپی ملکوں سمیت کئی ملک پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر شریعت کا نفاذ ہوا تو وہ احتیاط سے کام لیں گے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جیسے جرمنی نے کہا ہے کہ انسانی بنیادوں پر امداد کا کام تو جاری رہے گا۔ لیکن اس کے علاوہ اور کسی مدد اور تعاون کا انحصار طالبان کے رویے اور کردار پر ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ جو اور کچھ ممالک طالبان کے لئے تھوڑا سا نرم گوشہ رکھتے تھے، وہ بھی اس وقت محتاط نظر آرہے ہیں۔ جیسے ایران کی وزارت خارجہ نے بقول ان کے پنج شیر پر حملے اور وہاں ضرورت سے زیادہ طاقت کے استعمال ہر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ جو طالبان کے آنے سے پہلے خوش فہمی کی فضا تھی اور طالبان اپنی جس بدلی ہوئ سوچ کا خاکہ دنیا کے سامنے پیش کر رہے تھے، اس میں اور حکومت میں آنے کے بعد ان کے رویے میں فرق نظر آرہا ہے۔
افغان خواتین کی روبوٹک ٹیم کے لیے قطر کے وظائف
خواب دیکھنے والے افغان' نامی افغانستان کی نوجوان خواتین پر مشتمل روبوٹکس ٹیم کی ارکان کو قطر کی تعلیم اور سائنس فاؤنڈیشن کی جانب سے تعلیمی وظائف دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔
قطر حکومت نے حال ہی میں کابل ایئرپورٹ سے غیر ملکیوں اور ایسے افغان شہریوں کے انخلا کے لئےجن کی جان کو خطرات لاحق تھے، اہم کردار ادا کیا ہے۔
انہی افراد میں خواتین پر مشتمل اس روبوٹکس ٹیم کی طالبات بھی شامل ہیں جنہیں دارلحکومت دوحہ کی اسکولز اور یونیورسٹیز کے ایجوکیشن سٹی کیمپس میں ٹھہرایا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق قطر فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ قطر تعلیمی اور سائنس فاؤنڈیشن' اور 'قطر ترقیاتی فنڈ' کی شراکت داری سے ان طالبات کو وظیفے دیئے جائیں گے، تاکہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں.
بیس کے قریب نوجوان خواتین پر مشتمل اس ٹیم کی ارکان اس وقت دنیا میں مختلف جگہوں پر ہیں جن میں سے کئی قطر اور میکسکو میں ہیں۔
سن 2017 میں افغان طالبات کی یہ روبوٹکس ٹیم اسوقت شہ سرخیوں میں آئی تھی جب انہیں امریکہ میں ہونے والے اک روبوٹکس مقابلے میں شرکت کے لئے ویزوں کے حصول میں دشواری پیش آئی تھی اور بعد میں اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت کے بعد یہ طالبات امریکہ پہنچی تھیں۔
گزشتہ سال کرونا وبا کے دوران ہسپتالوں کی استطاعت بڑھانے کے لئے ان طالبات نے کاروں کے پرزوں پر مشتمل کم لاگت کے طبی وینٹیلیٹرز بنانے پر کام کیا تھا۔
قطر فاؤنڈیشن کی چیف ایگزیکٹو شیخہ ہندبنت حماد الثانی کا کہنا ہے کہ ''تخلیقی ذہنوں کی حامل اور اعلیٰ صلاحیت رکھنے والی یہ طالبات بےچینی اور غیر یقینی کی صورتحال میں زندگی گزار رہی تھیں۔ ہم قطر فاؤنڈیشن کے ذریعے ان کی ہر ممکن مدد کریں گے۔ ایجوکیشن سٹی میں تعلیمی وظیفے ملنے کے بعد اب یہ بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں گی''.
شیخہ ہند بنت خلیفہ الثانی نے مزید بتایا کہ اب یہ دیکھاجارہا تھا کہ ان کے لئے کونسے اسکول اور یونیورسٹی پروگرامز بہترین رہیں گے۔
منگل کے روز امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے قطر کے دورے کے دوران خواتین روبوٹکس ٹیم کی کئی میمبران سے ملاقات بھی کی۔
بلنکن نے ان طالبات سے گفتگو میں کہا کہ ''آپ دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ جو کہانی آپ خواتین کی سائنس میں اہمیت کے حوالے سے جو آپ نے کہا ہے وہ دوسروں کے لئے مشعل راہ ہے۔ آپ کی مثال صرف افغانستان کو ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کو اک اہم پیغام دیتی ہے''.
خبر رساں ادارے، اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے افغان خواتین روبوٹکس ٹیم کو مدد فراہم کرنے والے ڈیجیٹل سٹیزن فنڈ نامی ادارے کی سربراہ رویا محبوب نے ٹیم کی ارکان کے حوالے سے بتایا کہ ''یہ نوجوان طالبات بیرون ملک اپنی تعلیم جاری رکھنے کا موقع ملنے پر بہت خوش اور شکر گزار ہیں''.
رویا محبوب نے وزیر خارجہ بلنکن سے افغان خواتین کے مستقبل کے بارے میں بھی استفسار کیا۔
اس ٹیم کی کئی میمبران، جن کے نام ان کی شناخت محفوظ رکھنے کے لئے ظاہر نہیں کئے گئے، اب میکسکو میں مقیم ہیں۔