افغانستان کو خون ریزی اور تباہی سے بچانے کے لیے ملک چھوڑا: اشرف غنی
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے طالبان کی تازہ ترین پیش قدمی کے بعد اتوار کو ملک چھوڑ دیا ہے۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے فیس بک پر پشتو زبان میں اپنے ایک پیغام میں ملک چھوڑنے کی تصدیق کی اور کہا کہ "مجھے آج ایک بہت مشکل فیصلہ کرنا تھا۔ یا تو میں مسلح طالبان کا مقابلہ کرتا یا پھر ملک چھوڑ دیتا۔"
انہوں نے کہا کہ اگر میں ملک میں ٹہرتا تو لاتعداد لوگ مارے جاتے۔ 60 لاکھ کی آبادی کا شہر کابل تباہ ہو جاتا اور وہاں رہنے والوں کو ایک سانحے اور المیے کا سامنا کرنا پڑتا۔
اشرف غنی کا کہنا تھا کہ "طالبان کو فتح تلوار اور بندوق کے زور پر ہوئی ہے اور اب وہ عوام کی عزت، زندگیوں اور املاک کی سلامتی کے لیے جواب دہ ہیں۔ انہوں نے لوگوں کے دل نہیں جیتے۔ تاریخ میں کبھی کسی کو طاقت کے ذریعے قانونی جواز حاصل نہیں ہوا ہے۔"
مزید پڑھیے
افغان جنگ ختم ہو گئی: ترجمان طالبان
طالبان کے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں واقع سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے کہا ہے کہ افغان جنگ ختم ہو گئی ہے اور جلد ملک میں نئی حکومت کے قیام سے متعلق صورتِ حال واضح ہو جائے گی۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' ڈاکٹر محمد نعیم نے کہا کہ ہم اللہ کے شکر گزار ہیں کہ افغانستان میں جنگ کا خاتمہ ہو گیا ہے۔
انہوں نے قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن افغانستان کے عوام اور مجاہدین کے لیے عظیم دن ہے اور یہ ان کی 20 سالہ قربانیوں اور کوششوں کا ثمر ہے۔
ڈاکٹر نعیم نے کہا کہ افغانستان میں نئی حکومت کے قیام سے متعلق جلد صورتِ حال واضح ہو جائے گی۔ ان کے بقول طالبان دنیا میں تنہا نہیں ہونا چاہتے اس لیے وہ بین الاقوامی برادری کے ساتھ پرامن بات چیت کے خواہش مند ہیں۔
طالبان کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ہم اپنے ملک اور عوام کی آزادی کے طلب گار تھے اور وہ حاصل کر لیا ہے، ہم کسی کو اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور ہم دوسروں کو نقصان پہنچانا نہیں چاہتے۔"
طالبان کو بطور افغان حکومت تسلیم نہیں کرنا چاہیے، برطانوی وزیر اعظم
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ کسی بھی ملک کو طالبان کو بطور افغان حکومت تسلیم نہیں کرنا چاہیے، جب کہ یہ بات واضح ہے کہ بہت جلد افغانستان میں نئی انتظامیہ وجود میں آنے والی ہے۔
ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ''ہم نہیں چاہتے کہ کوئی بھی ملک اپنے طور پر طالبان کو تسلیم کرے''۔
اس ضمن میں برطانوی وزیر اعظم نے مغربی ممالک پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسا کوئی بھی اقدام اقوام متحدہ یا نیٹو جیسے کسی ادارے کے طریقہ کار کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ''ہم چاہتے ہیں کہ ایک جیسی سوچ رکھنے والے ممالک اس معاملے پر ایک جیسا مؤقف اختیار کریں، تاکہ ہم افغانستان کو خونریزی اور دہشت گردی کی آماجگاہ بننے سے روک سکیں۔''
طالبان جنگجو اتوار کے روز کابل میں داخل ہوئے، صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر باہر چلے گئے ہیں؛ جب کہ امریکی سفارت خانے نے بتایا ہے کہ ملک کے دارالحکومت کا ہوائی اڈہ فائرنگ کی زد میں ہے، جہاں سفارت کار، سرکاری اہل کار اور افغان شہری موجود ہیں۔
مزید پڑھیے
کابل میں موجود امریکی عملے کا محفوظ انخلا اولین ترجیح ہے: بلنکن
امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے طالبان کی جانب سے افغانستان کے کنٹرول اور کابل پہنچنے کو 'دل دہلا دینے' والا واقعہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ امریکی فورسز ملک سے تمام امریکیوں اور امریکہ کے لیے کام کرنے والے افغان شہریوں کو نکالنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔
وائس آف امریکہ کے لیے جیف سیلڈن کی رپورٹ کے مطابق اینٹنی بلنکن نے اتوار کو امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کے پروگرام اسٹیٹ آف دی یونین میں بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے لیے کابل میں موجود عملے اور امریکہ کی مدد کرنے والوں کی حفاظت اولین ترجیح ہے اور اس مقصد کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
ان کے بقول، "ہم نے طالبان سے کوئی مطالبہ نہیں کیا ، ہم نے انہیں کہا تھا کہ سفارتی عملے کے انخلا کے عمل کے دوران اگر انہوں نے ہمارے اہلکاروں یا ہمارے آپریشنز میں مداخلت کی کوشش کی تو اس کے جواب میں تیز اور فیصلہ کن ردِ عمل سامنے آئے گا۔"
علاوہ ازیں اتوار کو ایک امریکی عہدیدار نے صورتِ حال کی حساسیت کے باعث نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ کابل میں امریکی سفارت خانے سے انخلا کا عمل جاری ہے۔
مزید پڑھیے