امریکی اور پاکستانی عہدے داروں نے کہا ہے کہ کئى دن پہلے کراچی میں امریکہ اور پاکستان کی انٹیلی جینس کے ایجنٹوں کی ایک خفیہ مشترکہ کارروائى میں افغان طالبان کے کے ایک چوٹی کے فوجی کمانڈر کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔
عہدے داروں نے اس افغان کمانڈر کا نام ملّا عبدالغنی برادر بتایا ہے۔ جو طالبان میں اپنے اثرو رسوخ کے لحاظ سے طالبان تحریک کے بانی ملّا محمد عمر کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔اُنہوں نے کہا ہے کہ 2001 میں افغانستان کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے یہ طالبان کی سب سے اہم شخصیت ہے جسے گرفتار کیا گیا ہے۔
پاکستان کے وزیرِ داخلہ سے منگل کے روز جب نامہ نگاروں نے برادر کی گرفتاری کے بارے پوچھا تو انہوں نے اس کی تصدیق یا تردید کرنے سے انکار کردیا۔افغانستان میں طالبان نے اُس کی گرفتاری کی اطلاع کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ یہ ایک افواہ اور لوگوں کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔
تاہم پاکستانی اور امریکی انٹیلی جینس کے ایجنٹوں نے کہا ہے کہ وہ برادر سے پوچھ گچھ کررہے ہیں، جو طالبان کی روزمرّہ کی فوجی کارروائیوں اور اُن کی گورننگ پولیٹیکل کونسل کا انچارج تھا۔
عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اس گرفتاری سے پاکستان اور امریکہ کی انٹیلی جینس ایجنسیوں کے درمیان تعاون کی ایک نئى سطح کی عکاسی ہوتی ہے۔
ماضی میں امریکی عہدے دار پاکستان کی انٹیلی جینس ایجنسیوں پر یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ اُن کے طالبان کی قیادت کے ساتھ رابطے قائم ہیں اور انہیں پاکستان میں طالبان کے محفوظ ٹھکانوں کے خلاف کارروائى کرنے میں تامّل ہے۔ پاکستانی عہدے دار ہمیشہ اس دعوے کی تردید کرتے رہے ہیں۔
برادر کی گرفتاری کی اطلاع سب سے پہلے اخبار نیویارک ٹائمز نے پیر کے روز دیر گئے دی تھی۔
ٹائمز کا کہنا ہے کہ اُسے کراچی میں کی جانے والی کارروائى کا پچھلے ہفتے پتا چل گیا تھا۔ لیکن اُس نے وائٹ ہاؤس کی درخواست پر اسے شائع نہیں کیا تھا، جس کا استدلال تھا کہ اس اطلاع کو فوری طور پر شائع کرنے سے خفیہ اطلاعات حاصل کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔
اس رپورٹ کی اشاعت سے کئى گھنٹے پہلے پاکستانی عہدے داروں نے کہا تھا کہ پیر کے روز مشتبہ طور پر امریکہ کے کسی بے پائلٹ طیارے یا ڈرون کے ایک حملے میں ایک شمال مغربی قبائیلی علاقے میں کم سے کم تین جنگجو ہلاک ہو گئے۔ اس سے ایک دن پہلے ایسے ہی ایک اور حملے میں سات جنگجو مارے گئے تھے۔
وہائیٹ ہاؤس نے اس خبر پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے، جب کہ پاکستانی وزیر داخلہ رحمن ملک نے بھی اس بارے میں میڈیا کے ایک سوال کا واضح جواب نہیں دیا۔