ایران کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے نمائندوں نے امن مذاكرات کو آگے بڑھانے اور دیگر اسلامی گروپوں کا اثر و رسوخ کم کرنے کی غرض سے اتوار کے روز تہران میں ایرانی اہل کاروں سے ملاقات کی ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات افغان صدر اشرف غنی کے علم میں تھی اور اس کا مقصد طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا طریقہ کار طے کرنا تھا۔
ترجمان کے مطابق طالبان کا وفد اتوار کو تہران پہنچا جہاں اس نے ایران کے نائب وزیر خارجہ کے ساتھ جامع مذاكرات کئے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت 2001 میں ختم کر دی گئی تھی۔ اس کے بعد سے وہ ملک میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہے ہیں۔
طالبان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ وہاں بین الاقوامی فوجوں کی موجودگی ہے۔ امن مذاكرات کے عمل میں پیش رفت کے ساتھ ساتھ افغانستان میں لڑائی بھی مسلسل جاری ہے جس میں دونوں طرف بڑی تعداد میں ہلاکتوں کی خبریں آئی ہیں۔
حالیہ برسوں میں داعش کے جنگجو بھی افغانستان میں سرگرم رہے ہیں اور سرکاری فوجوں کے ساتھ ساتھ طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ بھی ان کی لڑائیاں ہوتی رہی ہیں جن پر افغانستان کے ہمسایہ ممالک میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس ماہ امریکی اہل کاروں کے ساتھ 6 ماہ کے لئے فائر بندی اور افغانستان سے امریکی فوجوں کے مجوزہ انخلاء کے حوالے سے تجاویز پر مذاکرات کئے ہیں۔
دسمبر میں افغان فوجوں نے افغانستان کے مغربی علاقے میں ایران کی سرحد کے قریب واقع ایک شہر کا قبضہ اس وقت چھوڑ دیا تھا جب انہیں وہاں موجود اپنے فوجیوں کو کمک پہنچانے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ شہر بعد میں طالبان کے قبضے میں چلا گیا تھا۔