طالبان نے امریکہ کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کی افواج کا دوحہ معاہدے کے مطابق انخلا نہیں ہوتا تو طالبان کے حملوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
طالبان کی طرف سے یہ تنبیہ روس کے دارالحکومت ماسکو میں جمعے کو پریس کانفرنس کے درمیان سامنے آئی۔ جو کہ بین الاقوامی مندوبین کی موجودگی میں افغان امن عمل سے متعلق ہونے والے مذاکرات میں سست روی کو ختم کرنے کے لیے منعقدہ ماسکو کانفرنس کے اگلے روز کی گئی۔
امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سابق صدر ٹرمپ کے دور میں امریکہ اور طالبان کے درمیان گزشتہ برس فروری میں طے پانے والے معاہدے پر نظرِ ثانی کی جا رہی ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے 'اے بی سی' کو بدھ کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ رواں سال یکم مئی کی ڈیڈ لائن پر عمل ممکن ہو سکتا ہے۔ تاہم ان کے بقول یہ مشکل عمل ہے۔
امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ اگر ڈیڈ لائن میں توسیع ہوتی بھی ہے تو وہ زیادہ نہیں ہو گی۔
ماسکو میں طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے رکن سہیل شاہین کا صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ بین الاقوامی افواج کو افغانستان سے جانا چاہیے۔
سہیل شاہین نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر افواج یکم مئی کے بعد بھی افغانستان میں تعینات رہتی ہیں تو یہ معاہدے کی خلاف ورزی ہو گی اور اس خلاف ورزی کا ردِ عمل ہو گا۔
ان کی طرف سے ردِ عمل کی نوعیت سے متعلق آگاہ نہیں کیا گیا۔ تاہم طالبان نے امریکہ کے ساتھ گزشتہ برس فروری میں طے پائے جانے معاہدے کے بعد امریکی اور نیٹو افواج پر حملے نہیں کیے۔
اس کے باوجود کے افغانستان میں حالیہ مہینوں میں پر تشدد کارروائیوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے جس کی ذمہ داری کسی کی طرف سے قبول نہیں کی گئی۔ تاہم ماضی میں افغان حکومت ان حملوں کی ذمہ داری کا الزام طالبان پر دیتی رہی ہے۔
یکم مئی کی ڈیڈ لائن تک فوجی انخلا نہ ہونے کے حوالے سے سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ وہ پر امید ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا۔ وہ انخلا کریں گے۔ جب کہ فریقین افغان تنازع کے پر امن تصفیے پر توجہ مرکوز رکھیں گے۔ اور اس پر بھی توجہ ہو گی کہ مستقل جنگ بندی ہو سکے اور افغانستان کے مستقبل کا سیاسی نقشہ واضح ہو سکے۔
ان کی طرف سے واضح کیا گیا کہ طالبان، افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے مطالبے پر قائم ہیں۔
صحافیوں سے گفتگو کے دوران سہیل شاہین کی طرف سے واضح نہیں کیا گیا کہ ان کی اسلامی حکومت کیسی ہو گی۔
ان کی طرف سے واضح طور پر اس سے متعلق کچھ نہیں کہا گیا کہ طالبان نئے انتخابات قبول کریں گے یا نہیں۔ تاہم انہوں نے زور دیا کہ افغان صدر اشرف غنی کی حکومت ان کی اسلامی حکومت کی تعریف کے مطابق نہیں ہے۔
خیال رہے کہ رواں ہفتے جمعرات کو روس کے دارالحکومت ماسکو میں افغانستان میں قیام امن کے لیے ایک روزہ کانفرنس بلائی گئی تھی۔ اس کانفرنس کا انعقاد ایسے موقع پر ہوا ہے جب افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کی ڈیڈ لائن قریب آ رہی ہے۔
کانفرنس میں افغانستان کی قومی مفاہمتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ اور طالبان کی طرف سے سیاسی امور کے نائب ملا عبدالغنی برادر نے اپنے اپنے وفود کی قیادت کی۔
کانفرنس کے دوراان امریکہ، روس، چین اور پاکستان نے افغانستان میں قیامِ امن کے لیے تمام فریقین سے تشدد میں کمی لانے کا مطالبہ کیا۔ جب کہ طالبان سے کہا گیا ہے کہ وہ موسمِ بہار میں اپنی کارروائیوں کو ترک کر دیں تاکہ امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا جا سکے۔
کانفرنس کے مشترکہ بیان میں افغان فریقین سے کہا گیا ہے کہ وہ بین الافغان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنائیں اور افغانستان کو ایک آزاد، خود مختار، پرامن، متحد، جمہوری اور خود کفیل ملک بنانے کے اقدام کی حمایت کریں اور ملک کو دہشت گردی اور منشیات سے پاک کریں۔
مشترکہ بیان میں افغانستان میں خواتین، بچوں، اقلیتوں اور دیگر کے حقوق کے تحفظ کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ وہ اسلامی امارات کی بحالی کی حمایت نہیں کرتے بلکہ افغان حکومت سے کہتے ہیں کہ اس کی قومی مفاہمتی کونسل طالبان کے نمائندوں کے ساتھ مل کر معاملات طے کرے۔
یاد رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے افغانستان میں قیامِ امن کے لیے خطے کی دیگر طاقتوں کو بھی مذاکراتی عمل میں شامل کرنے کا کہا ہے اور اسی سلسلے میں امریکہ کی جانب سے افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کا تصور بھی پیش کیا گیا تھا جس میں طالبان کو بھی شامل کرنے کی تجویز تھی۔
امریکہ کے اس تصور کی افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے بھرپور مخالفت کی گئی۔ جن کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کے انتخاب کے لیے الیکشن ہی واحد راستہ ہے۔
امریکہ کی جانب سے افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کا تصور ایسے موقع پر پیش کیا گیا ہے جب بائیڈن انتظامیہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں طالبان کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے پر نظر ثانی بھی کر رہی ہے۔
بائیڈن حکومت کا اس معاہدے کے بارے میں مؤقف ہے کہ یہ معاہدہ مضبوط بنیادوں پر نہیں ہوا۔
امن معاہدے کی شرائط کے تحت طالبان نے فروری 2020 کے بعد سے افغانستان میں غیر ملکی افواج کو براہِ راست نشانہ نہیں بنایا۔ البتہ انہوں نے دھمکی دی ہے کہ یکم مئی کی ڈیڈ لائن تک غیر ملکی افواج نے افغانستان سے انخلا یقینی نہ بنایا تو وہ انہیں نشانہ بنائیں گے۔