افغانستان میں طالبان اکثر آزاد میڈیا کو دھمکیاں دیتے رہتے ہیں لیکن حالیہ چند مہینوں کے دوران طالبان نے متعدد افغان صوبوں میں موجود میڈیا سے زبردستی ٹیکس وصول کرنا شروع کر دیا ہے۔
جنوب مغربی صوبے غزنی میں حال ہی میں ایک نجی ٹیلی ویژن اسٹیشن سے بھی مبینہ طور پر زبردستی ٹیکس وصول کیا گیا۔ ٹیلی ویژن اسٹیشن کے منتظم اعلیٰ احمد فرید نے ذرائع ابلاغ کو پیر کے روز بتایا کہ ’’طالبان نے موسم بہار کے آغاز میں فون کر کے ہم سے چار لاکھ افغانی یعنی تقریباً 5,785 امریکی ڈالر کا مطالبہ کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ ملک بھر میں موجود میڈیا پر ایسا ٹیکس عائد کر رہے ہیں۔ متعدد بار دھمکیاں ملنے کے بعد ہم نے یہ رقم ادا کر دی۔‘‘
غزنی یونین آف جرنلسٹس کے سربراہ عارف نوری کا کہنا ہے کہ طالبان گزشتہ تین ماہ سے تمام میڈیا اداروں کو اپنے سالانہ منافع کی تفصیلات فراہم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ وہ اُن پر واجب الادا ٹیکس کا تعین کر سکیں۔ بعد میں وہ دھمکی آمیز خطوں کے ذریعے اُنہیں یہ رقم ادا کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
طالبان کی طرف سے جن میڈیا اداروں کو مبینہ طور پر ہدف بنایا گیا ہے اُن میں کیلڈ ریڈیو اور سما ریڈیو بھی شامل ہیں جن کا کہنا ہے کہ اُن سے سالانہ منافع کی تفصیلات مانگی گئی تھیں تاکہ اُن سے ٹیکس کا تعین کیا جا سکے۔ 9 ماہ سے جاری ان دھمکیوں کے باعث ان دونون ریڈیو اسٹیشنوں کو اپنے عملے میں کمی کرنا پڑی۔ کیلڈ ریڈیو کی سربراہ نجیبا ایوبی نے RSF کو بتایا کہ اُنہوں نے یہ بھتہ ادا کرنے سے انکار کرتے ہوئے اس کی اطلاع قومی اور علاقائی حکام کو دی۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ میڈیا کے نمائیندوں نے ایسی دھمکیوں کے بارے میں ثبوت فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے جو دھمکی دینے والے افراد کو تلاش کرنے اور اُن کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے ضروری ہیں۔
Reporters without Borders میں ایران اور افغانستان ڈیسک کے سربراہ رضا معینی کا کہنا ہے کہ ان اطلاعات کے پس منظر میں یہ افغان حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ میڈیا اور صحافیوں کو ترجیحی بنیادوں پر تحفط فراہم کریں ۔
افغانستان کی معروف نیوز ایجنسی خبریال کے سربراہ اور سینئر صحافی میروائظ افغان نے وائس آف امریکہ کی اُردو سروس سے بات کرتے ہوئے ان اطلاعات کی تردید کی ہے کہ افغانستان کے مختلف صوبوں میں طالبان ذرائع ابلاغ کے اداروں سے ٹیکس کے نام پر بھتہ وصول کر رہے ہیں۔ میر وائظ نے کہا کہ افغانستان میں موجود جنگجو، منشیات کا کاروبار کرنے والے اور افغانستان کی خفیہ ایجنسیوں کے کچھ لوگ ممکنہ طور پر ایسے اقدامات کر رہے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کی کوئٹہ شوریٰ، قطر شوریٰ اور طالبان کے ترجمان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اُنہوں نے اس بات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ میڈیا سے بھتہ وصول کرنا اُن کی پالیسی کا حصہ نہیں ہے اور وہ اس بات کی تحقیقات کر کے اُن عناصر کو بے نقاب کریں گے جو طالبان کے نام پر ایسی حرکت کر رہے ہیں۔
میر وائظ افغان کا کہنا ہے کہ میڈیا بھی افغانستان میں طویل عرصے سے جاری جنگ میں اب ایک فریق بن چکا ہے اور بقول اُن کے امریکہ، نیٹو اور دیگر ممالک کے افغانستان میں موجود ادارے میڈیا کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کرنے کی خاطر مالی وسائل فراہم کرتے ہیں۔