افغانستان میں قیام امن کے امریکہ اور طالبان اور افغانوں کے مابین مذاکرات میں خواتین کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز نے دعوی کیا ہے کہ دوحا میں ہونے والے امن مذاکرات میں طالبان کے نمائندہ وفد میں خواتین بھی شامل ہوں گی۔
رائٹرز کے مطابق ایسا پہلی بار ہو گا کہ خواتین کے حقوق سے متعلق قدامت پسند سوچ رکھنے والے طالبان خواتین کو کسی سیاسی معاملے میں نمائندگی دے رہے ہیں۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹویٹ میں وضاحت کی ہے کہ یہ خواتین براہ راست مذاکرات میں شریک نہیں ہوں گی بلکہ یہ افغانستان کے سیاسی رہنماؤں اور انسانی حقوق کے نمائندوں کے ساتھ ایک کانفرنس میں شریک ہوں گی جیسا اس سے قبل انہوں نے ماسکو میں شرکت کی تھی۔
طالبان ، افغانستان کے اہم سیاسی زرہنماؤں سمیت اپوزیشن اور انسانی حقوق کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات 19 سے 21 اپریل کو قطر کے دارلحکومت دوحا میں طے شدہ ہیں۔
ایسا ہی ایک مذاکراتی دور رواں سال فروری میں ماسکو میں ہوا تھا۔
خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان کی جانب سے تاحال ان خواتین نمائندوں کے نام نہیں بتائے گئے۔ تاہم افغان ترجمان کے مطابق یہ وہ خواتین ہیں جو کسی طالبان رہنما کی رشتے دار نہیں ہیں بلکہ یہ خواتین اسلامی حکومت کے قیام کی جدوجہد میں سرگرم رہی ہیں۔
افغانستان میں نوے کی دہائی میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد خواتین سے متعلق سخت قوانین رائج تھے جن میں خواتین کو زبردستی پردہ کروانے، لڑکیوں کو اسکول اور گھر سے باہر کام کرنے سے سختی سے روکنا بھی شامل تھا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے اگلے دور کی تاریخوں کا اعلان تاحال نہیں ہوا اور محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ پہلے وہ بین الافغان مذاکرات کے نتیجہ کا جائزہ لیں گے۔
افغان مفاہمتی عمل کے لئے امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان امن معاہدے کے لئے کوشاں ہیں۔ جس میں افغانستان میں تشدد کے خاتمے، افغان سرزمین کو دہشت گردی کے لئے استعمال ہونے سے روکنے کے عوض امریکی انخلا کے نکات شامل ہیں۔
افغان طالبان نے افغان حکومت کو امریکہ کی کٹھ پتلی قرار دیتے ہوئے اس سے براہ راست مذاکرات سے انکار کر دیا تھا۔
افغان طالبان نے مذاکراتی عمل کے باوجود موسم بہار میں امریکی تنصیبات، افغان اور نیٹو افواج پر نئے حملے کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔