افغانستان میں طالبان نے دو غیر ملکی یرغمالیوں سے متعلق ایک وڈیو پیغام جاری کیا ہے، جن میں سے ایک امریکی اور ایک آسٹریلیائی شہری ہیں، جنھیں پانچ ماہ قبل کابل سے بندوق کی نوک پر یرغمال بنایا گیا تھا۔
یرغمالیوں کے نام، کیون کنگ اور جان ویکس ہیں، جنھیں امریکہ سے التجا کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ اُن کی جان بچانے کی خاطر طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔
دونوں کابل میں واقع ’امریکن یونیورسٹی آف افغانستان‘ میں پڑھایا کرتے تھے، جنھیں اگست کے اوائل میں کیمپس کے قریب سے بندوق کی نوک پر یرغمال بنایا گیا تھا۔
کنگ اور ویکس نے منتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان نےامریکی افواج کی سربراہی میں چلائے جانے والے بگرام کے فضائی اڈے اور کابل سے باہر، پُلِ چرخی کے افغان حراستی مرکز میں بند طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
دونوں نے اپنے اہلِ خانہ پر زور دیا ہے کہ وہ اُن کی رہائی کے لیے حکومتِ امریکہ پر زور ڈالیں۔
کنگ کے الفاظ میں ’’ہمیں امید ہے کہ آپ اُن پر دباؤ ڈال سکتے ہیں، تاکہ وہ طالبان سپاہیوں کے بدلے ہماری رہائی کے لیے بات کو تیزی سے آگے بڑھائیں۔ اس لیے، برائے کرم، اُن سے بات کریں، کیونکہ ہمیں نہیں معلوم کہ طالبان مزید کتنی دیر انتظار کریں گے‘‘۔
اپنے پیغام میں، ویکس نے کہا کہ اِس وڈیو کی عکس بندی یکم جنوری کو کی گئی؛ جس میں وہ رہائی کے لیے آہ و فریاد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ یرغمال بنائے جانے کے فوری دِنوں کے دوران امریکی افواج نے یرغمالیوں کی رہائی کی کوششیں کی تھیں، لیکن وہ ناکام رہے، چونکہ چھاپہ مارے جانے والے مقام سے یرغمالی برآمد نہیں ہوئے، جو مشرقی افغان صوبہٴ ننگرہار میں کسی علاقے میں واقع تھا۔
ذرائع ابلاغ کو وڈیو کے ساتھ جاری کیے گئے ایک بیان میں، طالبان نے مستقبل میں ایسے کسی چھاپے کے خلاف انتباہ میں کہا ہے کہ ’’طاقت کا استعمال اُن کے قیدیوں کو انتہائی خطرے میں ڈال سکتا ہے‘‘۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’اگر مخالف فریق واقعی ہوش مندی سے کام لے رہا ہوتا تو ہمیں یہ وڈیو جاری کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی‘‘۔