ناروے کے ایک انٹیلی جنس گروپ کی ایک رپورٹ کے مطابق، طالبان نے اپنی ایک بلیک لسٹ میں درج افغان باشندوں کو تحویل میں لینا شروع کر دیا ہے جن کے خیال میں وہ پچھلی افغان انتظامیہ یا امریکی قیادت والی افواج کے ساتھ کلیدی کردار ادا کر چکے ہیں۔
نارویجن سینٹر فار گلوبل اینالیسس (RHIPTO) کی طرف سے مرتب کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کابل پر قبضہ کرنے کے بعد سے سابقہ انتظامیہ سے منسلک افراد کو ہدف بنا رہے ہیں۔
بدھ کو جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "طالبان نے سابق حکومت کے ساتھ کام کرنے والے تمام قریبی افراد کی تلاش تیز کر دی ہے اور ناکامی کی صورت میں وہ ان کے خاندان کے افراد کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ انہیں اپنے شرعی قانون کے تحت سزا دیں گے۔"
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ "خاص طور پر فوج، پولیس اور تحقیقاتی یونٹوں میں مرکزی عہدوں پر کام کرنے والے اہل کار زیادہ خطرے میں ہیں۔"
نارویجن سنٹر فار گلوبل اینالیسز کی مرتب کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "افغانستان رپورٹ" اقوام متحدہ میں کام کرنے والی ایجنسیوں اور افراد کے ساتھ شیئر کی گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ایک عہدیدار سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا، "یہ اقوام متحدہ کی تیار کردہ رپورٹ نہیں ہے، بلکہ ناروے کے غیر منافع بخش نجی مرکز برائے عالمی تجزیے نے یہ رپورٹ تیار کی ہے"
طالبان کے ترجمان نے رپورٹ پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا فوری جواب نہیں دیا۔ کابل پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان دنیا کے سامنے ایک زیادہ اعتدال پسند چہرہ پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
چار صفحات کی رپورٹ میں سابقہ افغان حکومت میں انسداد دہشت گردی کے ایک عہدے دار کے اپنے دوست کو لکھے گئے ایک خط کو شامل کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسے کابل میں اپنے اپارٹمنٹ سے حراست میں لینے کے بعد اس سے پوچھ گچھ کی گئی تھی۔
ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ سابق انتظامیہ کے سیکیورٹی فورسز کے ایک سینئر رکن نے صحافیوں کو ایک پیغام بھیجا ہے کہ طالبان نے قومی سلامتی کی خفیہ دستاویزات حاصل کی ہیں اور طالبان سابق انٹیلی جنس اور سیکیورٹی عملے کو گرفتار کر رہے ہیں۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے)