افغانستان کے دارالحکومت کابل میں طالبان نے افغان سکیورٹی فورس کے دفتر پر حملہ کیا ہے جس میں کم از کم 30 افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہو گئے۔
حکام کے مطابق منگل کو ’’اسپیشل یونٹ فار افغان سکیورٹی فورس‘‘ کے دفتر پر خودکش کار بم حملے کے بعد مسلح افراد فائرنگ کرتے ہوئے عمارت کے احاطے میں داخل ہو گئے۔
افغان صدارتی محل سے جاری ہونے والے ایک بیان میں صدر اشرف غنی نے اس حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ہے۔
افغان حکام کے مطابق کئی گھنٹوں کی لڑائی کے بعد تمام حملہ آوروں کو مار دیا گیا جن میں سے بعض نے اپنے جسموں سے بندھے بارودی مواد میں دھماکا کر کے خود کو اُڑا دیا تھا۔
اس سے قبل اُنھوں نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر ایک پیغام میں کہا تھا کہ "یہ حملہ دشمن کو افغان فورسز کے ساتھ دو بدو لڑائی میں شکست کو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے۔"
بتایا جاتا ہے کہ کابل کے جس علاقے میں یہ حملہ ہوا وہ افغان صدر کی رہائش گاہ سے کچھ ہی فاصلے پر ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ذرائع ابلاغ کے نام بھیجے گئے ایک پیغام میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ اس کا ہدف افغان انٹیلی جنس ایجنسی کا ایک دفتر تھا۔
ذبیح اللہ نے دعویٰ کیا کہ خودکش کار بم دھماکے میں عمارت کا ایک حصہ منہدم ہو گیا اور اُن کے بقول بڑی تعداد میں افغان فورسز کا جانی نقصان ہوا۔
پاکستانی وزارت خارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف ہے۔
پاکستان کی قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے چیئرمین اویس لغاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس طرح حملوں سے امن کے لیے کی جانے والی کوششیں مزید مشکل ہوں گی۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے ہی افغان طالبان نے ’’عمری آپریشن‘‘ کے نام سے نئی کارروائیاں شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
طالبان کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ یہ کارروائیاں اپنے بانی رہنما ملا عمر کے نام پر شروع کر رہے ہیں۔
ملاعمر کا انتقال 2013 میں ہوا تھا لیکن طالبان نے اس کی تصدیق گزشتہ سال کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُنھوں نے دانستہ طور پر اس خبر کو پوشیدہ رکھا تھا۔
طالبان کی طرف سے نئی کارروائیوں کا آغاز ایسے وقت کیا گیا جب افغانستان میں امن مذاکرات کی بحالی کے لیے کوششیں جاری ہیں لیکن تاحال اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
افغانستان کے شمالی اور جنوبی حصوں میں طالبان پہلے ہی سے اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے مسلح کارروائیاں کرتے آرہے ہیں جہاں افغان سکیورٹی فورسز کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔