غزہ کی محصور پٹی میں امداد فراہم کرنے کی سفارتی کوششیں ناکام ہو گئیں ہیں، جہاں اسرائیلی فوج کی بمباری سے 2700 سے زیادہ افراد ہلاک اور 10 ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں اور بجلی، پانی اور خوراک کی فراہمی روک دیے جانے سے بحرانی صورتحال ہے۔
رائٹرز نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیل نے لبنان کی سرحد سے ملحق اپنے علاقے میں بستیوں کو خالی کرنے کا حکم دے دیا ہے جس سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ اسرائیل غزہ جنگ کا دائرہ ایک اور محاذ تک پھیل سکتا ہے۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ غزہ کے دس لاکھ سے زیادہ باشندے اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں۔ شہر میں بجلی موجود نہیں، پانی کی شدید قلت ہے اور اسپتال کے ایمرجنسی جنریٹرز کا ایندھن بمشکل ایک دن نکال سکتا ہے۔
رپورٹس کے مطابق اتوار کی رات کو، غزہ پر ، جنگ شروع ہونے کے بعد اب تک کے سب سے شدید فضائی حملے ہوئے اور دن بھر گولے برسائے جاتے رہے۔
غزہ کے سول ایمرجنسی آفیسر عابد ساقر نے رائٹرز کو بتایا کہ غزہ کے مختلف علاقوں میں بمباری سے شدید تباہی ہوئی ہے اور ملبے کے نیچے اب بھی کم از کم ایک ہزار لاشیں دبی ہوئی ہیں۔
اسرائیل نے لبنان کی سرحد سے دو کلومیٹر کے اندر واقع اپنے 28 دیہات خالی کرنے کا حکم دیا ہے ۔ جس سے حزب اللہ کے ساتھ بھی جنگی محاذ کھلنے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
اس سے پہلے لبنان میں قائم عسکریت پسند شیعہ گروپ حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان 2006 میں تقریباً ایک مہینے تک جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ حماس کی طرح حزب اللہ کو بھی ایران کی حمایت حاصل ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئےاسرائیلوں پر زور دیا کہ وہ خود کو ایک لمبی جنگ کے لیے تیار رکھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ہم ایک ہدف پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ ہم نے اپنی فورسز کو متحد کرنا اور فتح کے لیے آگے بڑھنا ہے۔ اس کے لیے عزم کی ضرورت ہے کیونکہ فتح میں کچھ وقت لگے گا۔
انہوں نے اپنے پڑوسیوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ میرا ایران اور حزب اللہ کے لیے ایک پیغام ہے کہ وہ ہمیں شمال میں نہ آزمائیں۔ ایسی غلطی نہ دوہرائیں جو آپ نے ایک بار پہلے کی تھی۔کیونکہ آپ اب اس کی جو قیمت ادا کریں گے وہ بہت بھاری ہو گی۔
اسرائیل اور حماس کی لڑائی شروع ہوئے 10 روز ہو چکے ہیں ، لیکن ابھی تک حماس کی اسرائیل کی جانب راکٹ فائر کرنے کی صلاحیت برقرار ہے۔ اور اسرائیلی علاقے سے اب بھی خطرے کے سائرن سنائی دیتے ہیں۔
سفارتی کوششوں کے سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن خطے کا دورہ کر رہے ہیں اور پانچ دنوں میں وہ اب دوسری بار اسرائیل پہنچے ہیں۔
فلسطینیوں کو امداد پہنچانے کی کوششوں میں توجہ ر رفاہ کراسنگ پر بھی مرکوز ہے۔ یہ واحد راستہ ہے جو اسرائیل کے کنٹرول میں نہیں ہے ۔ پیر کے روز مصر کی حدود میں کراسنگ کے قریب العریش قصبے میں امدادی سامان سے بھرے ہوئے ٹرک اجازت ملنے کا انتظار کر رہے تھے۔قاہرہ کا کہنا ہے کہ رفاہ کراسنگ کو بند نہیں کیا گیا لیکن غزہ کی جانب یہ راستہ اسرائیلی فضائی حملوں کی وجہ سے ناقابل استعمال ہو چکا ہے۔
پیر کی صبح مصر کے سیکیورٹی ذرائع نے رائٹرز کو بتایا تھا کہ جنوبی غزہ میں چند گھنٹوں کی جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا ہے تاکہ رفاہ کراسنگ سے امداد کی ترسیل ہو سکے اور غزہ چھوڑنے کے خواہش مند شہر سے نکل سکیں، لیکن بعد ازاں اسرائیل اور حماس دونوں نے ہی کسی جنگ بندی کی تردید کر دی۔
مصر کے وزیر خارجہ سامح شکری نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امداد کے لیے, اسرائیل کے ساتھ رفاہ کراسنگ کھولنے کی بات چیت اب تک بے نتیجہ رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی امداد کے دفتر نے زور دیا ہے کہ جان بچانے کی امداد بلا تاخیر غزہ پہنچانے کے لیے رفاہ کراسنگ کھولنے کی اجازت دی جائے۔
واشنگٹن یہ کوشش کر رہا ہے کہ مختصر وقت کے لیے اس کراسنگ کو کھول دیا جائے تاکہ غزہ میں پھنسے ہوئے وہ چند سو افراد وہاں سے نکل سکیں جن کے پاس امریکی پاسپورٹ ہے۔
تاہم رائٹرز نےایک اور رپورٹ میں بتایا ہے کہ 16 اکتوبر کو اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے درمیان جاری تنازعہ کے درمیان کچھ امریکی شہری اور ان کے قریبی خاندان کے افراداسرائیل کی تین بڑی بندر گاہوں میں سے ایک، حائفہ، سےبحری جہاز کے ذریعہ قبرص جانے کے لیے وہاں پہنچے ہیں۔
(اس تحریر کے لیے کچھ معلومات رائٹڑز سے لی گئیں ہیں)
فورم