رسائی کے لنکس

تاشفین اپنے آبائی گاؤں کی بدنامی کا باعث بنیں: اہل خانہ


عابدہ رانی اُن کی دیرینہ سہیلیوں میں سے ایک ہیں۔ اُنھوں نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو بتایا کہ، ’ہم چونک گئے کہ تاشفین کو یہ کیا ہوا؟ وہ اتنی مذہبی کیسے بنیں، اتنی سنجیدہ اور اسلامی تعلیمات پر ذہن مرتکز کرنے والی۔۔ تب تک وہ عام مطالعے میں شوق ترک کر چکی تھیں‘

پیر ولایت شاہ، ارشد حسین

پاکستان کے جنوبی پنجاب کے علاقے میں واقع تاشفین ملک کے آبائی گھر کے بیرونی دروازے پر تالا لگا ہوا ہے۔

گذشتہ ہفتے کیلی فورنیا کے شہر سان برنارڈینو میں دہشت گرد حملے کے واقعے کے بعد، میڈیا سے متعلق افراد کا تاشفین کے آبائی گھر پر تانتا بندھا رہا، جس پر خاندان کے باقی افراد بھی اپنا مکان خالی چھوڑ کر وہاں سے روانہ ہوگئے ہیں۔

امریکی حکام نے بتایا تھا کہ سان برنارڈینو کا حملہ تاشفین اور اُن کے امریکہ میں جنم لینے والے شوہر، سید رضوان فاروق نے کیا تھا۔

آبائی شہر کے مکینوں اور سابقہ ہمسایوں نے اس ہفتے گاؤں پہنچنے والی وائس آف امریکہ کی ٹیم کو وہی کچھ بتایا جو پہلے ہی اخبارات میں آچکا ہے کہ ایک خاندان جس کے بارے میں ایسا کوئی گمان نہیں تھا وہ یکایک خبروں میں نمایاں ہوا۔

محمد حماد کے بقول، ’وہ بہت ہی اچھے لوگ ہیں۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے‘۔

حماد کو ڈر ہے کہ اس شہر کو ملنے والا یہ نام اس کی بدنامی کا باعث ہے۔

بقول اُن کے، ’لوگ بہت ہی ناخوش ہیں کہ اُن کے شہر کا نام ایک ناپسندیدہ حرکت سے جُڑ چکا ہے‘۔

تاہم، تاشفین کے خیالات کی گمراہی کا کوئی بھی سبب ہو، کیلی فورنیا میں تعطیلات کی تقریب میں شوہر سے مل کر 14 افراد کا قتل کیا جانا، ششدر کرنے والا واقع ہے، جس کا یہاں رہنے والی اُس لڑکی کے بارے میں گمان تک مشکل تھا۔

ایسے میں جب ایف بی آئی نے کہا ہے کہ تاشفین اور اُن کے شوہر اس حملے سے بہت پہلے پُرتشدد انتہا پسند خیالات اختیار کرچکے تھے۔ تاشفین سنہ 1989 تک اِس شہر میں رہا کرتی تھیں، جب وہ محض تین برس کی تھیں۔

مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ اُس وقت اپنی زمین اور کاروبار کے جھگڑے کے بعد، اُن کے والد، گلزار ملک بمع خاندان اس علاقے کو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔

ایک مقامی صحافی، محمد جنید کے بقول، ’وہ جدہ منتقل ہوگئے تھے‘۔

تاشفین سعودی عرب میں پلیں بڑھیں

تاشفین کے پُرتشدد انتہاپسندی کی جانب مائل ہونے کی جڑیں سعودی عرب سے جا ملتی ہیں۔ تاشفین کے چچا نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ، ’وہ وہاں تھیں جب اُن کے والد نے اسلام کی صوفی روایات سے تعلق ختم کرکے وہاں کے سخت گیر وہابی خیالات کو گلے لگایا، جو دین کی سخت گیر سنی شاخ ہے، جو سعودی زندگی کی اساس ہے‘۔

اہل خانہ جنھوں نے سعودی عرب کا سفر کیا، بتاتے ہیں کہ گلزار ملک مذہب پر سختی سے عمل پیرا تھے، جب کہ اُن کا خاندان مذہبی رجحان رکھتا تھا۔

یہ خاندان کبھی کبھار ہی پاکستان آیا کرتا تھا، لیکن جنوبی پنجاب میں اُن کا ایک گھر تھا۔

تاشفین کے ایک چچا زاد، ملک احمد علی اولاق حکمراں، پاکستان مسلم لیگ کی حکومت میں صوبائی وزیر رہ چکے ہیں۔

جنوبی پنجاب مقامی انتہاپسند گروہوں کی آماجگاہ خیال کیا جاتا ہے، جن میں سے کئی شدت پسند گروہ ہیں جن پر الزام ہے کہ وہ ملک کے مختلف حصوں کے ساتھ ساتھ افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کی تشدد کی کارروائیوں کی پشت پناہی کرتے ہیں۔

آخر تاشفین کو ہوا کیا؟

سنہ 2007میں، تاشفین دیگر اہل خانہ کے بغیر پاکستان آئیں۔ اُنھوں نے ملتان کی بہاالدین زکریہ یونیورسٹی میں فارمیسی کی ڈگری حاصل کی، جو یہاں سے تقریباً 160 کلومیٹر دور واقع ہے۔

اُس وقت، ملتان اور تاشفین کا آبائی قصبہ فرقہ وارانہ فسادات کا مرکز بنے ہوئے تھے، ایسے میں جب پاکستان پر طالبان کے پہ در پے حملے جاری تھے۔

اہل خانہ نے بتایا کہ تاشفین کو کیمپس کا ماحول نہیں بھایہ۔ اُنھوں نے نقاب اوڑنا شروع کیا، جس کے پہننے سے آنکھوں کے علاوہ اُن کا سارا بدن ڈھکا ہوا رہتا تھا۔ وہ دیگر خواتین کے ساتھ، ہاسٹل میں رہنے پر ناخوش تھیں۔

ڈاکٹر سید نصار حسین شاہ نے ’نیویارک ٹائمز‘ کو بتایا کہ ’میں تاشفین کو ایک سعوی بچی خیال کرتا ہوں، کیونکہ وہ ہاسٹل میں مقیم باقی پاکستانی بچیوں سے مختلف تھیں۔

بعدازاں، تاشفین ایک گھر میں رہنے لگیں، جسے اُن کے والدین نے کرائے پر لیا تھا۔

عابدہ رانی اُن کی دیرینہ سہیلیوں میں سے ایک ہیں۔ اُنھوں نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ کو بتایا کہ، ’ہم چونک گئے کہ تاشفین کو یہ کیا ہوا؟ وہ اتنی مذہبی کیسے بنیں، اتنی سنجیدہ اور اسلامی تعلیمات پر ذہن مرتکز کرنے والی۔۔ تب تک وہ عام مطالعے میں شوق ترک کر چکی تھیں‘۔

سنہ 2013 میں تاشفین نے فارمیسی کی ڈگری حاصل کی، عین اُسی دوران، اُنھوں نے الہدیٰ انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لیا، جو علاقے میں خواتین کا واحد مدرسہ تھا، جس کی امریکہ اور کینیڈا میں شاخیں ہیں۔ عام خیال ہے کہ الہدیٰ انسٹی ٹیوٹ کے انتہاپسندوں کے ساتھ تعلق نہیں ہے۔

الہدیٰ میں، تاشفین نے قرآن کے مطالعے کے لیے دو سالہ تدریس میں داخلہ لیا۔ تاہم، اُنھوں نے اِسے مکمل نہیں کیا۔

الہدیٰ کے ترجمان، فرخ چودھری نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ، ’اُنھوں نے اپنا آخری امتحان تین مئی، 2014ء کو دیا‘۔

’تاشفین نے انسٹی ٹیوٹ کو بتایا کہ ’میں دو ماہ کےاندر شادی کر رہی ہیں، جس کے بعد میں امریکہ رہوں گی، اور باقی کورس خط و کتابت کے ذریعے مکمل کروں گی‘، فرخ نے بتایا۔

فرخ چودھری نے سان برنارڈینو کے حملے کی مذمت کی ہے۔

XS
SM
MD
LG