ترکی کے صدر طیب ایردوان نے دعویٰ کیا ہے کہ اُنہوں نے ملک کے صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔
اتوار کو ہونے والے انتخابات میں کامیابی کے بعد 15 سال سے برسرِ اقتدار صدر ایردوان ایک اور مدت کے لیے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔
ترکی کے انتخابی قوانین کے مطابق جیت کیلئے کسی اُمیدوار کو 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنا لازمی ہیں۔ اگر اُمیداروں کو 50 فیصد سے کم ووٹ حاصل ہوتے ہیں تو قواعد کی رو سے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو اُمیدواروں میں دوبارہ مقابلہ ہوتا ہے۔ تاہم طیب اردوان کو ابتدائی نتائج کے مطابق 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل ہو گئے ہیں جبکہ اُن کے مخالف اُمیدوار محرم انچے کو 31 فیصد کے لگ بھگ ووٹ ملے ہیں۔
تاہم اپوزیشن کی بڑی جماعت کا کہنا ہے کہ انتخابات میں شکست تسلیم کرنا ابھی قبل از وقت ہے اور حتمی نتائج سامنے آنے کے بعد ممکن ہے کہ طیب اردوان کی جماعت مطلوبہ 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو اور یوں 8 جولائی کو دونوں نمایاں اُمیدواروں میں ایک بار پھر انتخابی مقابلہ ہو۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس جیت کے ساتھ طیب اردوان کو پہلے سے زیادہ اختیار حاصل ہو جائیں گے اور یوں اس ملک میں ایک شخص کی آمریت قائم ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
پارلیمانی انتخابات میں طیب اردوان کی جماعت اے کے کی اتحادی جماعت ایم ایچ پی کو بھی توقع سے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ یوں طیب اردوان کی جماعت کے اتحاد کو پارلیمان میں بھرپور اکثریت حاصل ہو جانے کا امکان ہے۔
مخالف سیاسی جماعتوں کے تشکیل کردہ فیئر الیکشن پلیٹ فارم نے بھی تصدیق کی ہے کہ اردوان کو 53 فیصد کے لگ بھگ ووٹ حاصل ہو گئے ہیں۔