پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہر لاہور کے گورنمنٹ محمڈن اینگلو اورینٹل (ایم اے او) کالج کے استاد نے طالبہ کی جانب سے ہراساں کرنے کے الزام پر دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کر لی۔
پولیس کے مطابق انگریزی کے استاد افضل محمود نے نو اکتوبر کو زہر کھا کر خود کشی کی۔
دوسری جانب کالج انتظامیہ نے افضل محمود پر طالبہ کی جانب سے لگائے جانے والے الزام پر تحقیقات کے بعد اسے مبینہ طور پر غلط قرار دیا تھا۔
افضل محمود کی خودکشی پاکستان کے سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن چکا ہے۔
بعض سوشل میڈیا صارفین اسے خواتین کو مردوں کے ہراساں کیے جانے کے واقعات کو سامنے لانے کی مہم 'می ٹو' کے غلط استعمال شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔
افضل محمود نے تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہ عالیہ رحمٰن کو مبینہ طور پر ایک خط لکھا تھا یہ خط بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔
خط میں افضل محمود نے درخواست کی تھی کہ انہیں بے گناہ قرار دیے جانے کی رپورٹ ان کے حوالے کی جائے لیکن کالج انتظامیہ نے یہ رپورٹ انہیں نہیں دی تھی۔
خود کشی سے قبل افضل محمود نے ایک تحریری نوٹ بھی چھوڑا ہے۔
نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ وہ یہ معاملہ اب اللہ کی عدالت پر چھوڑتے ہیں لہذٰا پولیس اس ضمن میں کوئی قانونی کارروائی نہ کرے۔
افضل محمود پر یہ الزام ایم اے او کالج کی شعبہ ابلاغ عامہ کی ایک طالبہ نے لگایا تھا۔
طالبہ کا کہنا تھا کہ افضل محمود لڑکیوں کو گھور کر دیکھتے ہیں۔
ٹوئٹر پر ایک صارف احسان اچکزئی نے لکھا ہے کہ یہ ایک تکلیف دہ خبر ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آخر کب تک معصوم لوگ اس نام نہاد مہم کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔
ایک صارف عماد ظفر نے لکھا ہے کہ غلط الزامات لگانے والوں کے خلاف کارروائی کے لیے بھی قانون سازی ہونی چاہیے۔
مشہور صحافی صارف ضرار کھوڑو نے لکھا ہے کہ ایک انسانی جان ضائع ہونے پر اب اس واقعے سے 'دستی بم' کی طرح جان چھڑائی جا رہی ہے۔
نور نامی صارف نے لکھا ہے کہ آٹھ اکتوبر کو افضل نے کالج انتظامیہ کو انہیں الزامات سے بری کرنے والی رپورٹ طلب کی۔ لیکن نو جنوری کو انہوں نے خود کشی کر لی۔
اس طرح مشہور گلو کار علی ظفر نے بھی اس پر اظہار خیال کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایم اے او کالج کے لیکچرار نے ایک جھوٹے الزام پر خود کشی کی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اب دیکھنا ہوگا کہ کتنے لوگ اس حوالے سے بات کرتے ہیں اور کتنے لوگ ہیں جو اس می ٹو مہم کے غلط استعمال پر بات کریں گے۔
واضح رہے کہ علی ظفر پر بھی مشہور گلوکارہ میشا شفیع نے گزشتہ سال اپریل میں ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا تاہم علی ظفر نے اس کی تردید کی تھی۔ اس کے بعد دونوں میں قانونی جنگ جاری ہے۔
'ایک واقعے سے پوری مہم پر تنقید نامناسب'
انسانی حقوق کے لیے سرگرم ڈاکٹر عمار جان کا کہنا ہے کہ ایک واقعے کو بنیاد بنا کر پوری مہم کو تنقید کا نشانہ بنانا مناسب نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان یونیورسٹی کا واقعہ ہمارے سامنے ہے۔ عرصہ دراز سے وہاں خواتین ہراسانی کا شکار ہو رہی تھیں لیکن وہ اس پر بات کرنے سے ڈرتی تھیں۔
ڈاکٹر عمار کا کہنا تھا کہ اگر اس مہم کا غلط استعمال ہو رہا ہے تو اس کے لیے طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس واقعے سے یہ نتیجہ نکالنا کے خواتین بہت زیادہ طاقتور ہو گئی ہیں تو یہ بھی غلط ہے۔
خیال رہے کہ انسانی حقوق کمشن نے بلوچستان یونیورسٹی میں انتطامیہ کی جانب سے نصب خفیہ کیمروں سے خواتین طالبات کو بلیک میل کرنے کے الزامات پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
می ٹو مہم ہے کیا؟
سال 2017 میں امریکہ میں ہالی ووڈ کی متعدد اداکاراؤں نے پروڈیوسر ہاروی وائنسٹن کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام لگایا تھا۔
اداکارہ ایلسا میلانو نے ٹوئٹر پر 'می ٹو' کے نام سے ہیش ٹیگ متعارف کرایا تھا۔
جس کے بعد دنیا بھر کی خواتین نے اس کے ذریعے جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات کو شیئر کرنا شروع کر دیا اور یہ مہم دنیا بھر میں مقبول ہو گئی۔