کراچی —
حکومت، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو اسلام آباد میں 11 مئی کو جلسے کی اجازت دینے پر رضامند ہوگئی ہے۔ تاہم، وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس اجازت کو کئی شرائط سے مشروط کردیا ہے۔
وفاقی وزیر نے ایک نئی اصطلاع استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ’ کنٹینر سیاست‘ کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ غالباً ’کنٹینر سیاست‘ سے ان کی مراد حکومت کے خلاف ’دھرنا‘ تھی۔
جمعرات کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ اسلام آباد کے حساس علاقوں میں جلسے روایت بن چکے ہیں، حالانکہ دنیا کے کسی ملک میں حساس اداروں اور عمارتوں کے سامنے احتجاج نہیں ہوتا۔ لیکن، سیاسی جماعتوں کی جانب سے ’بلیو ایریا‘ میں احتجاج کی ضد سمجھ سے بالا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سربراہ سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے کے لئے بضد ہیں، انہیں اجازت دے دی جائے گی۔ لیکن، اگر کسی کارکن نے دارالحکومت میں اسلحہ لانے کی کوشش کی تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ شہر میں کسی بھی قسم کا اسلحہ لانا خلاف قانون ہوگا اور ایسا کرنے والے سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
وزیر داخلہ نے ’تحریک منہاج القرآن‘ کے سربراہ، پروفیسر طاہر القادری کا نام لئے بغیر کہا کہ سابق دور میں انہوں نے خواتین اور بچوں کو جمع کرکے سیاست چمکانے کو کوشش کی تھی۔ اب وہی پارٹی دوبارہ احتجاج کے لئے پر تول رہی ہے۔ بقول اُن کے، ایسےکسی سیاسی حربے کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
چوہدری نثار کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسلام آباد کی سیکیورٹی کے لئے پولیس، رینجرز اور ایف سی کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کو جلسے کیلئے کنٹینرز لانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ تاہم، اسٹیج کے لئے کنٹینرز بھی اہلکاروں کی موجودگی میں لگائے جائیں گے۔
پی ٹی آئی کے فیصلے کی مخالفت
تحریک انصاف نے اتوار کے روز گزشتہ سال ہونے والے انتخابات میں مبینہ طور پر دھاندلی کے خلاف اسلام آباد کے ریڈ زون میں جلسہ اور احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ تاہم، حکمراں جماعت مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت متعدد جماعتوں نے اس کی مخالفت کی ہے۔ ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی کے خلاف ایک سال بعد احتجاج بے معنی ہے۔
سیاسی نقصان اور فائدہ
ادھر مبصرین اور سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جانب سے ہونے والے احتجاج کا مقصد سیاسی نمبروں کے حصول کے علاوہ کچھ نہیں۔ اگر احتجاج پُرامن ہوا تو مجموعی صورتحال پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن، اگر اس سے نمٹنے میں ذرا بھی غلطی ہوئی تو اس کا سب سے بڑا فائدہ پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کو ہوگا۔
وفاقی وزیر نے ایک نئی اصطلاع استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ’ کنٹینر سیاست‘ کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ غالباً ’کنٹینر سیاست‘ سے ان کی مراد حکومت کے خلاف ’دھرنا‘ تھی۔
جمعرات کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ اسلام آباد کے حساس علاقوں میں جلسے روایت بن چکے ہیں، حالانکہ دنیا کے کسی ملک میں حساس اداروں اور عمارتوں کے سامنے احتجاج نہیں ہوتا۔ لیکن، سیاسی جماعتوں کی جانب سے ’بلیو ایریا‘ میں احتجاج کی ضد سمجھ سے بالا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سربراہ سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے کے لئے بضد ہیں، انہیں اجازت دے دی جائے گی۔ لیکن، اگر کسی کارکن نے دارالحکومت میں اسلحہ لانے کی کوشش کی تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ شہر میں کسی بھی قسم کا اسلحہ لانا خلاف قانون ہوگا اور ایسا کرنے والے سے سختی سے نمٹا جائے گا۔
وزیر داخلہ نے ’تحریک منہاج القرآن‘ کے سربراہ، پروفیسر طاہر القادری کا نام لئے بغیر کہا کہ سابق دور میں انہوں نے خواتین اور بچوں کو جمع کرکے سیاست چمکانے کو کوشش کی تھی۔ اب وہی پارٹی دوبارہ احتجاج کے لئے پر تول رہی ہے۔ بقول اُن کے، ایسےکسی سیاسی حربے کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
چوہدری نثار کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسلام آباد کی سیکیورٹی کے لئے پولیس، رینجرز اور ایف سی کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کو جلسے کیلئے کنٹینرز لانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ تاہم، اسٹیج کے لئے کنٹینرز بھی اہلکاروں کی موجودگی میں لگائے جائیں گے۔
پی ٹی آئی کے فیصلے کی مخالفت
تحریک انصاف نے اتوار کے روز گزشتہ سال ہونے والے انتخابات میں مبینہ طور پر دھاندلی کے خلاف اسلام آباد کے ریڈ زون میں جلسہ اور احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے۔ تاہم، حکمراں جماعت مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت متعدد جماعتوں نے اس کی مخالفت کی ہے۔ ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی کے خلاف ایک سال بعد احتجاج بے معنی ہے۔
سیاسی نقصان اور فائدہ
ادھر مبصرین اور سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جانب سے ہونے والے احتجاج کا مقصد سیاسی نمبروں کے حصول کے علاوہ کچھ نہیں۔ اگر احتجاج پُرامن ہوا تو مجموعی صورتحال پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لیکن، اگر اس سے نمٹنے میں ذرا بھی غلطی ہوئی تو اس کا سب سے بڑا فائدہ پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کو ہوگا۔