پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعت ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ نے پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں احتجاجی ریلی نکالی، جس کی قیادت تحریک کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی نے کی۔
احتجاجی ریلی کا مقصد توہین رسالت کے الزام میں قید آسیہ بی بی کی ممکنہ رہائی کے خلاف تھا۔ ریلی لاہور میں معروف صوفی بزرگ حضرت علی ہجویری المعروف داتا صاحب کے دربار سے چیئرنگ کراس تک نکالی گئی۔
ریلی سے خطاب کرتے ہوئے ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی نے کہا کہ اگر آسیہ بی بی کو رہا کیا گیا تو ان کی جماعت پاکستان بھر میں احتجاجی مظاہرے کرے گی اور اگر ضرورت پیش آئی تو عدالت کے باہر دھرنا بھی دے گی۔ خادم حسین رضوی کا کہنا تھا کہ آسیہ بی بی کا جرم کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
بقول اُن کے، “سیشن کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ نے آسیہ بی بی کو مجرم قرار دیا ہے۔ اگر سپریم کورٹ نے اس سزا کو ختم کیا تو یہ قانون ناموس رسالت اور آئین پاکستان پر حملہ تصور کیا جائے گا”۔
خادم حسین رضوی کا کہنا تھا کہ اگر آسیہ بی بی کو رہا کیا گیا تو ملک بھر میں احتجاج کا ایسا سلسلہ شروع کیا جائے گا جو سزا ختم کرنے سے متعلق فیصلے کے خاتمے تک جاری رہے گا۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’سپریم کورٹ کے ججز نے آسیہ کی رہائی سے متعلق فیصلہ دیا تو ایسے ججوں کے پیچھے قادیانی قوتوں اور اسلام دشمن عناصر کا ہاتھ ہوگا۔ ایسے ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی کرے”۔
آسیہ بی بی کے جرم سے متعلق چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے رواں ماہ آٹھ اکتوبر، 2018ء کو ان کی رہائی یا بری ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
پاکستان میں انسانی حقوق سے متعلق غیر سرکاری تنظیم، ’ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ کے چئیرمین، ڈاکٹر مہدی حسن نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر آسیہ بی بی کو رہا کر بھی دیا گیا تو اُسے قتل کر دیا جائے گا، کیونکہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ ماضی میں سات ایسے افراد کو عدالتی فیصلے سنانے سے قبل، عدالت پہنچنے سے پہلے یا پولیس اسٹیشن میں قتل کر دیا گیا، کیونکہ اُن پر توہین رسالت کا الزام تھا۔
اُنھوں نے کہا کہ “اگر عدالتی فیصلے کے نتیجے میں آسیہ بی بی کو رہائی ملتی ہے تو اُس کی زندگی بچانے کے لیے ضروری ہے کہ اُسے فوری طور پر ملک سے باہر بھیجا جائے”۔
آسیہ بی بی کا تعلق عیسائی مذہب سے ہے اور وہ اس وقت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ جن کا تعلق صوبہٴ پنجاب کے ضلع شیخو پورہ سے ہے۔ آسیہ بی بی 2010ء میں مقامی پولیس نے مبینہ طور پر توہین رسالت پر گرفتار کیا تھا۔ آسیہ بی بی کو مقامی سیشن کورٹ اور لاہور ہائیکورٹ نے مجرم قرار دیا تھا۔
آسیہ بی بی سے اُس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے ملاقات کی تھی، جس کے بعد انہوں نے بیان دیا تھا کہ توہین رسالت کا قانون انسانوں کا بنایا ہوا ہے، جس میں نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے اس بیان کے بعد اُن کی سرکاری محافظ پنجاب پولیس کے اہلکار ممتاز قادری نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔