پاکستان کو ایف سولہ لڑاکا طیاروں کی فراہمی کے لیے زر اعانت روکے جانے کے بعد سے امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں ماضی کی نسبت تناؤ دیکھا جا رہا ہے۔
اس کا اعتراف پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے ایوان بالا "سینیٹ" میں لڑاکا طیاروں کے معاملے پر ہونے والی بحث سمیٹتے ہوئے کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ تین ماہ سے یہ تعلقات ایک بار پھر تناؤ کا شکار ہیں اور تعلقات میں بہتری کے عمل کو دھچکا لگا ہے اور ایف سولہ طیاروں کے لیے امریکی کانگریس کی طرف سے فنڈز روکے جانا اس تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ امریکہ کی طرف جوہری امور سمیت کئی مطالبات کیے گئے لیکن پاکستان ان کو مسترد کر چکا ہے اور ان کے بقول قومی سلامتی اور خارجہ تعلقات میں ترجیحات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
امریکہ نے آٹھ ایف سولہ طیاروں کی فراہمی کے لیے بیرون ملک فوجی معاونت کے اپنے فنڈز سے 40 کروڑ ڈالر سے زائد معاونت فراہم کرنی تھی جب کہ بقیہ 27 کروڑ ڈالر پاکستان کو ادا کرنے تھے۔ لیکن کانگریس کے بعض ارکان کے اعتراض کے بعد امریکہ نے پاکستان کو آگاہ کیا کہ اب طیاروں کی خریداری کے لیے پوری رقم پاکستان کو ہی ادا کرنا ہو گی۔
حکمران جماعت کے سینیٹر عبدالقیوم نے جمعہ کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس سارے معاملے کو بدقسمتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک امریکہ سے تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتا اور جلد ہی وزارت دفاع کی طرف سے ایک وفد امریکہ کا دورہ کرے گا۔
"یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان کے ساتھ سوتیلی جاں جیسا سلوک ہوتا ہے ہم ایک اور کوشش کر رہے ہیں، ہماری ایک ٹیم جا رہی ہے دفاع کی امریکہ، 30 اور 31 کو میٹنگ ہو رہی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ بہتر سوچ اپنائی جائے گی۔"
اوباما انتظامیہ اس بات کا اعتراف کرتی ہے ایف سولہ لڑاکا طیاروں کی پاکستان کو فراہمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس ملک کی استعداد کار کو بڑھائے گی جو کہ خود امریکہ کے مفاد میں ہے، لیکن عہدیداروں کے بقول بعض گانگریس ارکان کے اس پر اعتراضات کے بعد اس کے لیے یہ زر اعانت فراہم کرنا ممکن نہیں۔