بروز پیر 26 نومبر بھارت کے اقتصادی دارالحکومت ممبئی پر دہشت گردانہ حملوں کے دس سال مکمل ہو گئے۔ اس موقع پر جنوبی ممبئی کے پولیس جمخانہ میں ایک تعزیتی تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں حملوں کے دوران ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ تقریب میں ریاستی وزیر اعلیٰ، گورنر، اعلیٰ پولیس افسران اور ہلاک شدگان کے بعض عزیز و اقارب بھی موجود تھے۔
صدر رام ناتھ کووند اور وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی ہلاک شدگان کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ ہم ان لوگوں کو فراموش نہیں کر سکتے جنھوں نے اپنی جانیں گنوائی ہیں۔ انھوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اپنے عہد کا اعادہ کیا۔
وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ حملوں کے منصوبہ ساز آزاد گھوم رہے ہیں۔ اس نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ”دوہرا رویہ“ ترک کرے اور حملوں کے منصوبہ سازوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔
امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے امریکی حکومت اور عوام کی جانب سے بھارت اور بالخصوص ممبئی کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ ہم متاثرین کے خاندانوں اور دوستوں کے ساتھ کھڑے ہیں جن کے اعزا 6امریکی شہریوں سمیت اس وحشیانہ عمل میں ہلاک ہوئے تھے۔
انھوں نے ایسی اطلاعات فراہم کرنے پر جن کی بنیاد پر حملوں کے منصوبہ ساز پکڑے جائیں اور انھیں سزا دلائی جا سکے، 50 لاکھ ڈالر کے انعام کی پیشکش کی ہے۔
یاد رہے کہ 10 دہشت گردوں نے 26 نومبر 2008 کو ممبئی میں متعدد مقامات پر دہشت گردانہ حملے کیے تھے جن میں 166 افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
حملہ آوروں اور سیکورٹی فورسز میں تین روز تک جاری مقابلے میں9 حملہ آور مارے گئے تھے اور ایک حملہ آور اجمل قصاب کو زندہ پکڑا گیا تھا۔ اس کے خلاف عدالتی کارروائی چلی اور چار سال بعد اسے پھانسی دے دی گئی۔
بھارت نے الزام عائد کیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان سے سرگرم لشکر طیبہ سے ہے۔ اس نے جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ سعید اور ذکی الرحمن لکھوی کو حملوں کا منصوبہ ساز قرار دیا۔ اس نے اس بارے میں پاکستان کو متعدد ڈوزیئر سونپے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے حافظ سعید کے خلاف ناقابل تردید شواہد پاکستان کے حوالے کیے ہیں۔
حافظ سعید کے خلاف پاکستان کی انسداد دہشت گردی عدالت میں کارروائی چل رہی ہے۔ انھیں کچھ دنوں تک نظربند رکھا گیا۔ اس کے بعد عدالت نے ثبوتوں کے فقدان پر انھیں رہا کر دیا۔
ممبئی حملوں کے سلسلے میں خصوصی استغاثہ کے طور پر پیش ہونے والے اجول نکم نے عدالتی کارروائی میں تاخیر پر حکومت پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا۔
جبکہ پاکستانی عدالتوں کا کہنا ہے کہ بھارت نے صرف اطلاعات فراہم کی ہیں ثبوت نہیں۔ ٹھوس ثبوتوں کے بغیر کسی کے خلاف کیسے کارروائی کی جا سکتی ہے۔
اس حملے نے بھارت اور پاکستان کے مابین امن عمل کو پٹری سے اتار دیا۔ جامع مذاکرات منقطع ہو گئے اور تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے۔
ایک سینئر تجزیہ کار این کے سنگھ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ممبئی حملوں نے بھارت کو بہت گہرا زخم لگایا ہے۔ لیکن اگر اس کے بعد حملوں کا سلسلہ بند ہو گیا ہوتا تو بھی تعلقات کی گاڑی آگے بڑھ جاتی۔
انھوں نے کہا کہ بھارتی عوام کی مانند پاکستان کے عوام بھی دوستانہ اور خیرسگالی کے تعلقات چاہتے ہیں۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ وہاں کے لوگ بہت اچھے ہیں اور بھارتی عوام سے بڑی محبت سے پیش آتے ہیں۔
این کے سنگھ نے کہا کہ جب دونوں ملکوں کے عوام دوستی چاہتے ہیں تو پھر رکاوٹ کہاں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کے حکمران چاہتے تو تعلقات بہتر ہو جاتے۔ انھوں نے کہا کہ حملے سے قبل دونوں ملک بہت قریب آگئے تھے۔ اگر وہاں کے حکمران ایکشن لیتے تو آج حالات کچھ اور ہوتے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ ممبئی حملوں کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے تک لائے گا۔ وہ کسی بھی قیمت پر دہشت گردی برداشت نہیں کر سکتا۔ وہ بھارت کے ساتھ پرامن اور دوستانہ تعلقات کے قیام پر زور دیتا ہے۔
عمران خان کی قیادت میں موجودہ حکومت کے قیام کے بعد اور اس سے قبل بھی پاکستان جامع مذاکرات کی تجدید اور بات چیت سے تنازعات کے حل پر زور دیتا رہا ہے۔