پاکستان کو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے بدترین دہشت گردی کا سامنا رہا ہے، اگرچہ حالیہ برسوں میں عسکری پسندوں کے خلاف بھر پور ملک گیر کارروائیاں کی گئی ہیں لیکن دہشت گردوں کے مالی وسائل کو روکنا حکومت کے لیے اب بھی ایک چیلنج ہے۔
اسی چیلنج سے متعلق ذرائع ابلاغ میں وزارت خزانہ کی ایک خفیہ رپورٹ کی تفصیلات شائع ہوئی ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اب بھی دہشت گرد تنظیمیں سالانہ اربوں روپے اکھٹے کرتی ہیں۔
اگرچہ وزارت خزانہ کی یہ رپورٹ ذرائع ابلاغ کو باضابطہ طور پر جاری نہیں کی گئی ہے لیکن اس کے جو مندرجات میڈیا میں سامنے آئے ہیں ان کے مطابق دہشت گرد تنظیمیں منشیات کی اسمگلنگ، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور دیگر ایسے غیر قانونی ذرائع سے مالی وسائل حاصل کرتی ہیں۔
دہشت گردی کی عفریت سے نمٹنے کے لیے پاکستانی حکومت نے ایک قومی لائحہ عمل وضع کیا جس کے تحت ملک بھر میں بھر پور سیکورٹی آپریشن جاری ہیں۔
اب صورت حال ماضی کی نسبت کافی بہتر ہے تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایسی سرگرمیوں کی فنڈنگ کے ذرائع کو روکنا بھی ضروری ہے۔
تجزیہ کار عامر رانا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ حکومت نے اس طرف کچھ پیش رفت کی ہے تاہم ان کے بقول اس پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
"ابھی تک پوری توجہ دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے کو ختم کرنے کی طرف ہے اور دوسرا ہمارے پاس شاید صلاحیت کی بھی کمی ہے کہ (وفاقی تحقیقاتی ادارہ) ایف آئی اے اور جو دیگر ادارے ہیں جن کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں وہ (غیر قانونی مالی وسائل کے روکنے کے لیے) ابھی تک کوئی مناسب طریقہ کار وضع نہیں کر سکے ہیں۔
تاہم حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے راہنما اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خزانہ کے رکن طلال چوہدری کہتے ہیں کہ حکومت نے اس حوالے سے کافی اقدمات کیے ہیں۔
"پاکستان میں اس (قومی) اسمبلی نے جو پہلا قانون بنایا تھا وہ منی لانڈرنگ کی روک تھام سے متعلق تھا اور اس کے تحت بہت سارے (بینک) اکاؤنٹس اور ذرائع کو بند کیا گیا اور اس کے علاوہ بیرون ملک سے آنے والے پیسے کو روکنے کے ساتھ ساتھ اندرون ملک فلاحی کاموں کی آڑ میں پیسے جمع کرنے کو بھی روکا گیا۔"
طلال چوہدری نے کہا کہ اگرچہ حکومت اپنے طور پر اس معاملے سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں بین لااقوامی سطح پر تعاون بہت اہم ہے۔
اگرچہ پاکستان میں 60 سے زائد ایسی شدت پسندتنظمیں ہیں جن پر حکومت کی طرف سے پابندی عائد کی جا چکی ہے تاہم ایسی اطلاعات سامنے آتی رہتی ہیں کہ کلعدم تحریک طالبان پاکستان، لشکر طیبہ، لشکر جھنگوی اور سپاہ محمد اب بھی فنڈز جمع کرنے کی غیر قانونی سرگرمیوں میں مبینہ طور ملوث ہیں۔