بلوچستان میں آج (جمعرات) کے روز بھی اخبارات کی ترسیل ممکن نہ ہو سکی۔
بلوچستان میں ذرائع ابلاغ کے اداروں اور صحافیوں پر جاری حملوں کے تیسرے روز آج اخبارات شائع تو ہوئے لیکن اُنہیں دہشت گردوں کے خوف سے تقسیم نہیں کیا جا سکا۔ یوں بلوچستان میں مکمل طور پر امن کی بحالی کے دعوے کے حوالے سے نئے سوالیہ نشان کھڑے ہو گئے ہیں۔
بلوچستان کے ضلع تربت میں نوز ایجنسی کے دفتر پر جمعرات کے روز اُس وقت دستی بم کا حملہ ہوا جب یہ اطلاع ملی کہ اخبارات چھپ کر نیوز ایجنسی پر پہنچ گئے ہیں اور وہاں سے اُن کی تقسیم کا کام شروع ہونے والا ہے۔ اس دستی بم کے حملے سے چار افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
اس حملے کے بعد سیکورٹی فورسز نے نیوز ایجنسی کے باہر حفاظتی گارڈ تعینات کر دیے ہیں۔
بدھ کی رات کو بھی بلوچستان کے صنعتی شہر حب کے پریس کلب میں ایک دستی بم پھینکا گیا تھا جو پریس کلب کے صحن کی دیوار کے قریب گرا۔ تاہم اس سے کسی شخص کے زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔
بلوچستان کے عسکریت پسند گروپوں کی طرف سے یہ حملے بظاہر میڈیا پر دباؤ ڈالنے کیلئے کئے جا رہے ہیں تاکہ وہ ان گروپوں کی طرف سے جاری کردہ بیانات کو فوری طور پر اور من و عن شائع اور نشر کرے۔ اس سلسلے میں ان دہشت گرد تنظیموں نے وائس آف امریکہ کو بھی ہدف تنقید بناتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ وی او اے محض سرکاری بیانیے کو اہمیت دیتا ہے اور اُن کے مؤقف کی پزیرائی نہیں کرتا۔
بلوچستان کے صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے اُن کے بیانات اخبارات میں شائع ہوتے تھے لیکن پچھلے دنوں ذرائع ابلاغ کی تنظیموں نے فیصلہ کیا کہ وہ اُن کے بیانات شائع نہیں کریں گے۔
ایک صحافی نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں اُنہیں مسلسل فون کر کے بیانات شائع کرنے کے حوالے سے دھمکیاں دے رہی تھیں اور اُنہوں نے اب اُن کے فون سننا بند کر دئے ہیں۔
صحافی کا کہنا تھا کہ اسے یہ بھی شبہ ہے کہ اُس کا فون سیکورٹی ایجنسیاں ٹیپ کر رہی ہوں گی تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ اسے کن نمبروں سے فون موصول ہو رہے ہیں۔ لہذا اسے دونوں جانب سے خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ اگر عسکریت پسندوں کی منشا کے مطابق رپورٹنگ نہیں کی جاتی تو اُن کی طرف سے حملے کا خطرہ ہوتا ہے تو دوسری جانب سیکورٹی اداروں کی طرف سے اُنہیں اُٹھائے جانے کا خدشہ بھی موجود رہتا ہے۔ ان حالات میں صحافیوں کیلئے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں شدید دشواری ہو رہی ہے۔
صحافی کا کہنا تھا کہ چونکہ اُس کی گزربسر صحافت پر ہی ہے، اس لئے اپنے صحافتی کاموں کیلئے اسے مجبوراً گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔ صحافی کا یہ بھی کہنا تھا کہ کچھ صحافیوں کے بلوچ عسکریت پسندوں سے ذاتی رابطے ہیں جو مزید تشویش کا باعث ہیں۔
بلوچستان صوبائی حکومت کے ترجمان انوارالحق کاکڑ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت بلوچ عسکریت پسندوں کی غیر قانونی حیثیت کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی اور اُن کے خلاف مؤثر کارروائی کا آغاز کیا جا رہا ہے۔
درایں اثنا بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ثناءاللہ زہری نے اعلان کیا ہے کہ صوبے میں دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے ایک ہزار جوانوں پر مشتمل ایلیٹ پولیس فورس قائم کی جا رہی ہے۔