سندھ کا وہ خوب صورت خطہ جہاں گھنے بادلوں کو دیکھ کر مور اپنے پر پھیلا دیتے ہیں، گھنگھور گھٹاؤں کا منظر فضا میں رنگ اور انسانوں میں زندگی کی ایک نئی چمک جگا دیتا ہے، اس خطے کو ان دنوں ایک بار پھر قحط کے سنگین خطرے نے آگھیرا ہے۔
یہ پاکستان کے صوبہ سندھ کا جغرافیائی لحاظ سے سب سے بڑا ضلع تھر پارکر ہے۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر آئندہ چند روز میں یہاں بارش نہ ہوئی تو یہ قحط کا خطرہ حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔
تھر کے رہائشی کلدیپ کا کہنا ہے کہ بارش تھر کے تمام علاقوں اور یہاں کے انسانوں کے لیے زندگی کا پیغام ہے۔ پانی اور بارش کے بغیر زندگی کا تصور بے معنی ہے۔ ہاریوں کو جون سے اگست تک اپنی فصلوں کے لیے وقفے وقفے سے پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور بارش پانی کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کلدیپ کا کہنا تھا، "یہاں جون سے اگست تک بارشوں کا موسم رہتا ہے۔ جون اور جولائی کے مہینے خشکی کی نذر ہوگئے اور اگست کے 20 دن بھی بارش کے بغیر گزرے ہیں۔ جو تھوڑی بہت بارشیں ہوئیں بھی تو وہ اتنی نہیں تھیں کہ جن سے بارش کے پانی پر منحصر فصلیں کاشت کی جاسکتیں۔"
ادھر تحصیل نگرپارکر میں کنویں خشک ہو چکے ہیں اور مکین پانی کی بوند، بوند کو ترس رہے ہیں۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس اہم مسئلے کے حل کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
اس تمام صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے تھر کے باسیوں، نمائندوں اور مقامی انتظامیہ نے حکومتِ سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ 22 ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے ڈسٹرکٹ تھر پارکر کو قحط زدہ علاقہ قرار دیا جائے۔
اطلاعات ہیں کہ ڈپٹی کمشنر غلام قادر جونیجو سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو کو اس سلسلے میں تحریری درخواست بھی دے چکے ہیں۔
ڈسٹرکٹ ریونیو افسر کے مطابق ناکافی بارشوں کی وجہ سےانسانوں کے لیے فصلیں اور جانوروں کے لیے گھاس نہیں اگ سکی۔ لاکھوں مویشیوں کا چارہ ختم ہو گیا ہے اور لوگوں نے مجبوراً نقل مکانی شروع کردی ہے۔
فصلیں کاشت نہ کرسکنے کے باعث صحرائی علاقے کو قحط جیسی صورتِ حال کا سامنا ہے۔
تھرپارکر کے ڈپٹی کمشنر حکومت سے درخواست کی ہے کہ مٹھی، ڈیپلو، اسلام کوٹ، ڈھالی، چھاچھرو، کالوئی اور ننگر پارکر تعلقوں کو قحط زدہ قرار دیتے ہوئے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا جائے تاکہ عوام کو سستے نرخوں پر گندم اور دیگر غذائی اجناس فراہم کیا جاسکے۔
تھرکی فصلوں میں باجرہ، مونگ اور گوار کی پھلی شامل ہے۔ ان فصلوں کے لیے غیر معمولی بارشیں ہی موافق ہوتی ہیں ۔ ان بارشوں سے فصلیں لہلہا اٹھتی ہیں، انسانوں کو پانی ذخیرہ کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور علاقہ ہریالی میں بدل جاتا ہے۔ لیکن اس بار ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہوا۔
اسلام کوٹ اور مٹھی کے اسپتالوں کے انتظامی اہلکاروں نے وائس آف امریکہ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ رواں ماہ کے 15 ابتدائی دنوں میں کل 26 بچے غذائی قلت کے باعث دم توڑ چکے ہیں۔
اب تک ہوئی ہلاکتوں کو دیگر ذرائع سے ملنے والی تعداد کے ساتھ جمع کرلیا جائے تو یہ 400 کا ہندسہ عبور کرچکی ہے۔ ضلع کے تمام اسپتالوں میں تاحال بڑی تعداد میں غذائی قلت و وبائی امراض میں مبتلا بچے زیرِ علاج ہیں۔
غذائی قلت یہاں پہلے ہی کئی برسوں سے بچوں کی مسلسل اموات کا سبب بنی ہوئی ہے اور اب تک درجنوں بچے خوراک کی کمیابی کے سبب اس جہاں سے کوچ کرچکے ہیں اور اب بھی یہ خطرہ مسلسل سروں پر منڈلا رہا ہے۔ ایسے میں قحط پڑا تو زندگی مزید مشکلات سے دوچار ہوجائے گی۔