سنتے آئے ہیں کہ موسیقی کی کوئی زبان نہیں ہوتی۔ لیکن، پاکستان کی نامور مصنفہ صفیہ سلیم بیگ نے اپنے کام سے موسیقی کو ’’دلوں کی دھڑکن‘‘ قرار دیا ہے۔
اچھی موسیقی کانوں میں بس جاتی ہے، دلوں میں اتر جاتی ہے اور اسے سن کر ہاتھ، پاؤں، ہونٹ اور آواز سب کچھ حرکت میں آجاتے ہیں۔ کیا کوئی اور بھی ایسا فن ہے جو انسان کو یوں تھرکنے پر مجبور کر سکتا ہو؟
موسیقی کی کوئی سرحد بھی نہیں ہوتی۔ کوئی نسل، کوئی رنگ اور کوئی مذہب بھی نہیں ہوتا۔ صفیہ سلیم بیگ نے شاید اسی لئے بھارتی کلاسیکی موسیقی، اس کے راگوں اور سروں کو اپنی کتاب ’سمپورن‘ میں بہت خود صورت انداز میں یکجا کیا ہے ۔۔۔ اس حقیقت کے باوجود کہ پوری دنیا میں کلاسیکل موسیقی کو سننے والے کم ہیں اور پاکستان میں بھی صورتحال مختلف نہیں۔
’سمپورن‘ کی تقریب رونمائی کراچی میں واقع فرانسیسی ثقافتی مرکز ’الائنس فرانسیس‘ میں انجام پائی۔ تقریب کلاسیکی موسیقی اور کتاب سے محبت کرنے والے کا چھوٹا سا میلہ ثابت ہوئی۔
اس پر جس خوب صورت انداز میں پاکستانی ویٹرن گلوکارہ ٹینا ثانی اور کلاسیکل ڈانسر شیما کرمانی نے صفیہ سلیم بیگ کی شخصیت، ان کی خدمات اور کتاب پر خراج تحسین پیش کیا اس نے ہر فرد کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔
مصنفہ نے ’سمپورن‘ میں ناصرف طویل تحقیق کے بعد سات سروں اور مختلف راگوں کو بہت خوبصورتی سے ’سمپورن‘ کا حصہ بنایا ہے۔ بلکہ، موسیقی کے میدان میں نئے آنے والوں کے لئے بھی موسیقی کے بنیادی قاعدے اور اصول بیان کئے ہیں۔
صفیہ بیگ نے اس موقع پر میڈیا سے بات چیت میں بتایا کہ انہیں شروع ہی سے کلاسیکی موسیقی سے دلچسپی تھی اور انہوں نے استاد حامد حسین نے دو سال تک باقاعدہ ان سے موسیقی کی تعلیم بھی حاصل کی۔
صفیہ بیگ نے 1983 میں ایک اکیڈمی برائے فارمنگ آرٹس قائم کی اور 1999 میں کلاسیکل موسیقی کے فروغ کے لئے ایک ’این جی او‘ بنائی۔ اس تنظیم کا نام بھی ’سمپورن‘ ہے۔
’سمپورن‘ کے پیش لفظ میں بھارتی ماہر موسیقی دپیک راجا نے صفیہ بیگ کی کلاسیکل موسیقی کو آگے بڑھانے کے لئے کی جانے والی کوششوں کی تعریف کی اور لکھا ہےکہ ’’صفیہ کی کتاب کلاسیکل موسیقی میں بیش قیمت اضافہ ہے۔‘‘
ٹینا ثانی نے تقریب سے خطاب میں کہا کہ ’’صفیہ بیگ کی کلاسیکل موسیقی کے شعبے میں بڑی خدمات ہیںاوران جیسے دوسرے لوگوں سے خود انہوں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ کلاسیکل میوزک کی بحالی کے لئے ہمیں صفیہ ملک کی تنظیم اور ’سمپورن‘ دونوں کے لئے ہر طرح کا تعاون کرنا چاہئے۔‘‘
کلاسیکل ڈانسر شیما کرمانی نے صفیہ بیگ کو ’گرو‘ قرار دیا اور کہا کہ ’’آرٹ کے ہر شعبے میں ’گرو‘ کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ صفیہ بیگ جیسی عظیم ہستیاں نہ صرف دوسرے کو تعلیم دیتی ہیں، بلکہ انہیں انسانی رشتوں کا احترام اور انہیں نبھانا بھی سکھاتی ہیں۔‘‘