زندگی کے سب سے بڑے اسرار میں سے ایک موت ہے، عام معنوں میں بدن سے روح کی جدائی کا نام موت ہے، لیکن موت کی حقیقت مرنے کے بعد ہی انسان پر آ شکار ہوتی ہے اور کوئی یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا ہے کہ مرنے کے بعد اس کے ساتھ کیا ہو گا لیکن اس بات پر سب کو یقین ہے کہ مرنے والے کے آخری الفاظوں میں بڑی سچائی ہوتی ہے۔
کچھ لوگوں کو قدرت موت کے لیے تیار ہونے کا موقع دیتی ہے، جبکہ کچھ کو یہ مہلت نہیں ملتی ہے۔ اگرچہ تاریخ کی کتابیں دنیا کی ممتاز ہستیوں کے آخری لمحات کے آخری الفاظ سے بھری پڑی ہیں لیکن ایک برطانوی سروے میں عام لوگوں کے آخری الفاظ کا ریکارڈ جمع کیا گیا ہے۔
جائزہ رپورٹ 2,198 بالغان کے انٹرویو پر مبنی ہے، جنھوں نے گزشتہ سالوں میں اپنے پیاروں کی جدائی کا دکھ برداشت کیا تھا۔
شرکاء کے مطابق بستر مرگ پر ہونے والے عام مکالمات میں رشتے ناتے اور کیرئیر کے بارے میں نصیحت شامل تھی۔
سروے 'پرفیکٹ چوائس فینورلز' کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا جس میں 83 فیصد لوگوں کو ان کے پیاروں نے دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے دانائی کے مشورے دیے تھے۔
سروے میں شامل 62فیصد شرکاء کے مطابق مرنے سے پہلے ان کے پیاروں نے رشتوں کی اہمیت کے بارے میں نصیحت کی تھی۔
مجموعی طور پر 56 فیصد نے بتایا کہ ان کے پیاروں نے بستر مرگ پر اپنے بچوں کے کیرئیر کے بارے میں تبادلہ خیال کیا، جبکہ 43 فیصد شرکاء کی خاندانی زندگی گزارنے کے بارے میں رہنمائی کی گئی۔
علاوہ ازیں تعلیم اور مالیات بالترتیب 32 اور 39 فیصد لوگوں کے آخری موضوع کے حوالے سے مقبول بتائے گئے ہیں۔
سروے میں شامل لوگوں سے جب پوچھا گیا کہ وہ کیا سمجھتے ہیں کہ ان کے پیاروں نے انھیں نصحیت کیوں کی تھی؟
اس سوال کا سب سے مقبول جواب جو 29 فیصد لوگوں نے چنا تھا، کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مرنے والے اپنے خاندان کے افراد اور دوستوں کو ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتا تھے۔
مشہور لوگوں کے آخری الفاظ :
جب مشہور لوگ مرتے ہیں، تو ان کے آخری الفاظ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ایک شخص کے آخری الفاظ انتہائی چونکا دینے والے بھی ہو سکتے ہیں، جس میں اس شخص کے مجموعی احساسات کی ایک جھلک ملتی ہے۔ ان میں سے کچھ زندگی کے آخری سفر پر روانہ ہونے سے پہلےجشن منانے کی آرزو کرتے ہیں تو کچھ نڈر لوگ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی تقدیر کو آزماتے ہیں اور کسی معجزے کے منتظر رہتے ہیں۔
دنیا سے رخصت ہونے والے مشہور لوگوں کے آخری الفاظوں کو عرصہ دراز سے ریکارڈ میں محفوظ کیا گیا ہے۔ اس فہرست میں کچھ مشہور لوگوں کے آخری الفاظ درج ہیں۔
ونسٹن چرچل: ونسٹن چرچل نے دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کے وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں، انھیں جنگ کے زمانے کے عظیم رہنماؤں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔ انھوں نے ادب میں نوبل انعام جیتا تھا ان کا انتقال نوے برس کی عمر میں 24 جنوری 1965ء میں ہوا، بیسویں صدی کے رہنما ونسٹن چرچل کے کومے میں جانے سے پہلے آخری الفاظ تھے۔
'میں اس سب کے ساتھ بور ہو گیا ہوں '
جارج واشنگٹن :جارج واشنگٹن نے امریکی انقلاب میں فوج کی قیادت کی، اور ریاستہائے امریکہ کے پہلے صدر بنے۔ ان کا انتقال 67 برس کی عمر میں 1799ء میں ہوا ان کی موت کا سبب ایک معمہ ہی رہا۔ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ جارچ واشنگٹن شدید علیل تھے اور جانتے تھے کہ وہ نہیں بچ سکیں گے۔ انھوں نے اپنی سیکرٹری ٹوبائیس لیئر سے اپنی وصیت میں کہا کہ ''میں اب جا رہا ہوں، مجھے باعزت طریقے سے دفنایا جائے اور میرے مرنے کے بعد میری لاش کو تین دن سے زیادہ کفنایا نا جائے، کیا تم سمجھ گئی، پھر ٹھیک ہے''
شہزادی ڈیانا: شہزادی ڈیانا برطانوی شہزادے چارلس کی پہلی اہلیہ تھیں، انھیں ان کے فلاحی کاموں کی وجہ سے بھی دنیا بھر میں شہرت ملی وہ اپنی دلکش شخصیت کی وجہ سے دنیا بھر کے ذرائع بلاغ کی توجہ کا مرکز تھیں ۔شہزادی ڈیانا اور چارلس کے درمیان علحیدگی ہوجانےکے بعد 31 اگست 1997ء کو جب وہ پیرس میں تھیں تو ان کی کار کا پاپارازی فوٹو گرافر کی طرف سے پیچھا کیا گیا ان کی کار تیز رفتاری کے باعث ہولناک حادثے کا شکار بن گئی۔ حادثے کے مقام پر سب سے پہلے پہنچنے والے فائر فائٹر نے بتایا کہ آخری لمحات میں جب ان کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں وہ کہہ رہی تھیں 'میرے خدا یہ کیا ہوا'
اسٹیو جابس : ایپل کے شریک بانی اور سی ای او اسٹیو جابس نے پرسنل کمپیوٹر کی دنیا میں میکنٹاش کے تعارف کے ساتھ انقلاب برپا کیا، انھوں نے آئی پیڈ اور آئی فون متعارف کرایا۔ اسٹیو جابس جگر کے سرطان میں مبتلا تھے ان کا انتقال 56 برس کی عمر میں 2011ء میں ہوا۔
اسٹیو جابس کی بہن مونا نے ان کے جنازے کی دعائیہ سروس میں اپنے بھائی کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ اسٹیو نے علالت کے دنوں میں ایک بار موت کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ زندگی کی واحد بہترین ایجاد ہے، ان کے آخری الفاظ کے بارے میں مونا سیمسن نے بتایا کہ وہ تعجب کے احساس کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کیا تھا جس پر وہ خوشیاں منا رہا تھا ان کی زبان پر دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے ''ارے واہ ارے واہ ارے واہ'' کے الفاظ تھے ۔
صدام حسین : صدام حسین نے دو دہائیوں تک عراق میں آمریت کا راج رکھا لیکن 2003ء میں ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور انھیں گرفتار کر لیا گیا، 69 سال کی عمر میں انھیں 2006ء میں موت کی سزا سنائی گئی۔ انھوں نے آخری لمحات میں نا معافی مانگی اور نا کوئی افسوس ظاہر کیا اور تختہ دار پر چڑھنے کے بعد زندگی کے آخری لمحات میں کلمہ طیبہ پڑھا ''میں قسم کھاتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد۔۔۔ ''ان کے آخری الفاظ مکمل نہیں ہو سکے اور اس کے بعد وہ آخری سانس تک پر سکون تھے۔
مائیکل جیکسن :مائیکل جیکسن کے معالج کا نراڈ مرے کے مطابق مائیکل جیکسن نے موت سے قبل ایک جملہ کہا تھا، مائیکل جیکسن کے آخری الفاظ ''مور ملک'' کے تھے۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ مائیکل جیکسن نے بے ہوشی کی دوا کی عرفیت ملک یا دودھ رکھی ہوئی تھی۔
اسٹیو ارون : اسٹیو ارون جنگلی حیات کے ماہر تھے۔ اسٹیو ارون کے کیمرہ مین کے مطابق مگرمچھوں کے ساتھ اٹھکیلیاں کرنے والے نڈر کروکوڈائل ہنٹر یا اسٹیو مرنے سے پہلے اپنی بیٹی کے شو کے لیے ایک سیگمنٹ تیار کر رہے تھے اور جس وقت ان کے سینے میں اسٹینگرے مچھلی کے کانٹے نے چھید کیا تو ان کے الفاظ تھے ''میں مر رہا ہوں''
سر چارلس اسپینسر یا چارلی چپلن :خاموش فلموں کے دور کے مزاحیہ برطانوی اداکار اور ہدایتکار چارلی چپلن کا انتقال کرسمس کے روز 1977ء میں ہوا اور جب بستر مرگ سے قریب بیٹھے پادری نے انھیں حوصلہ دیا اور کہا کہ خداوند آپ کی روح پر رحم فرمائے۔
تو اس پر چپلن نے جواب دیا جو ان کے آخری الفاظ بھی تھے ''کیوں نہیں یہ روح اسی کی تو ہے''
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ چپلن کے جسد خاکی کو سوئٹزرلینڈ کے قبرستان سے چرا لیا گیا تھا اور ان کی بیوہ سے چھ لاکھ ڈالر کا مطالبہ کیا گیا تھا تاہم بعد میں اس شخص کو گرفتار کر لیا گیا اور لاش برآمد کر لی گئی۔
وولف گینگ موزارٹ : عہد قدیم کے مشہور اور ایک با اثر کلاسیکل موسیقار تھے انھوں نے چھ سو سے زائد دھنیں تیار کی تھیں۔ ان کا انتقال مختصر علالت کے بعد 35 برس کی عمر میں 1791ء میں ہوا ۔
وہ موت سے دو گھنٹے پہلے مکمل طور پر بے ہوش تھے۔ انھوں نے ہوش و ہواس میں رہتے ہوئے اپنے آخری الفاظ میں کہا کہ ''موت کا ذائقہ میرے ہونٹوں پر ہے،''میں جو محسوس کر رہا ہوں وہ اس زمین کا نہیں ہے۔''