واشنگٹن —
اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ صرف مئی کے مہینے میں عراق میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات اور بم دھماکوں میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
عراق میں 2006ء اور 2007ء میں فرقہ ورانہ تشدد کے عروج کے دور کے بعد سے کسی بھی ایک مہینے میں یہ اب تک ہونے والی سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں جنہوں نے عراق کے محفوظ مستقبل پر سوالیہ نشان کھڑے کردیے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق عراق میں فرقہ ورانہ کشیدگی کی تازہ لہر کے نتیجے میں گزشتہ دو ماہ کے دوران ہونے والی ہلاکتیں دو ہزار سے تجاوز کرگئی ہیں۔
عراق کے لیے اقوامِ متحدہ کے نمائندہ خصوصی مارٹن کوبلر نے ہفتے کو جاری کیے جانے والے اپنے ایک بیان میں ہلاکتوں کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے عراقی سیاسی رہنمائوں پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر اس قتل و غارت کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مئی کے 31 دنوں میں عراق بھر میں پیش آنے والے واقعات میں کل 1045 افراد مارے گئے جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔
بیان کے مطابق بم دھماکے اور تشدد کے واقعات شیعہ اور سنی، دونوں آبادیوں میں پیش آئے اور دونوں مسالک کے ماننے والوں کی بڑی تعداد ان حملوں کا نشانہ بنی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق عراق میں ہونے والے پرتشدد واقعات ملک کی شیعہ حکومت اور سنی اقلیت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کا نتیجہ ہیں جس کا شدت پسند گروہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
عراقی وزیرِ اعظم نوری المالکی کی حکومت کے بعض عہدیداران کا موقف ہے کہ حالیہ حملوں کے پیچھے 'القاعدہ' کی عراق شاخ اور سابق صدر صدام حسین کی فوج کے سابق افسروں سے منسوب شدت پسند گروہوں کا ہاتھ ہے جن کی کاروائیوں کےنتیجے میں شیعہ ملیشیائیں بھی سرگرم ہوسکتی ہیں۔
عراقی سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ ملک کی بڑی مسلح شیعہ تنظیمیں – خصوصاً مہدی آرمی، اصائب الحق اور کتائب حزب اللہ - فی الحال حالیہ پرتشدد واقعات میں ملوث نہیں ہوئی ہیں لیکن ان تنظیموں کے کمانڈروں کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی کاروائی کے لیے تیار ہیں۔
عراق میں 2006ء اور 2007ء میں فرقہ ورانہ تشدد کے عروج کے دور کے بعد سے کسی بھی ایک مہینے میں یہ اب تک ہونے والی سب سے زیادہ ہلاکتیں ہیں جنہوں نے عراق کے محفوظ مستقبل پر سوالیہ نشان کھڑے کردیے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق عراق میں فرقہ ورانہ کشیدگی کی تازہ لہر کے نتیجے میں گزشتہ دو ماہ کے دوران ہونے والی ہلاکتیں دو ہزار سے تجاوز کرگئی ہیں۔
عراق کے لیے اقوامِ متحدہ کے نمائندہ خصوصی مارٹن کوبلر نے ہفتے کو جاری کیے جانے والے اپنے ایک بیان میں ہلاکتوں کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے عراقی سیاسی رہنمائوں پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر اس قتل و غارت کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مئی کے 31 دنوں میں عراق بھر میں پیش آنے والے واقعات میں کل 1045 افراد مارے گئے جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔
بیان کے مطابق بم دھماکے اور تشدد کے واقعات شیعہ اور سنی، دونوں آبادیوں میں پیش آئے اور دونوں مسالک کے ماننے والوں کی بڑی تعداد ان حملوں کا نشانہ بنی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق عراق میں ہونے والے پرتشدد واقعات ملک کی شیعہ حکومت اور سنی اقلیت کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کا نتیجہ ہیں جس کا شدت پسند گروہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
عراقی وزیرِ اعظم نوری المالکی کی حکومت کے بعض عہدیداران کا موقف ہے کہ حالیہ حملوں کے پیچھے 'القاعدہ' کی عراق شاخ اور سابق صدر صدام حسین کی فوج کے سابق افسروں سے منسوب شدت پسند گروہوں کا ہاتھ ہے جن کی کاروائیوں کےنتیجے میں شیعہ ملیشیائیں بھی سرگرم ہوسکتی ہیں۔
عراقی سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ ملک کی بڑی مسلح شیعہ تنظیمیں – خصوصاً مہدی آرمی، اصائب الحق اور کتائب حزب اللہ - فی الحال حالیہ پرتشدد واقعات میں ملوث نہیں ہوئی ہیں لیکن ان تنظیموں کے کمانڈروں کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی کاروائی کے لیے تیار ہیں۔