اقوام متحدہ کے اہل کاروں کا کہنا ہے کہ گذشتہ پانچ دِنوں کے دوران، ہزاروں عراقی موصل سے بھاگ نکلنے پر مجبور ہوئے ہیں، جب سے امریکی قیادت والی افواج نے شہر کو داعش کے شدت پسندوں کے چنگل سے رہائی دلانے کی کارروائی کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا ہے۔
شدت پسندوں کی تعداد انتہائی کم ہو چکی ہے، جو شہری آبادی کی آڑ میں چھپ گئے ہیں، جس کے باعث شہری آبادی کی ہلاکتوں میں خاصا اضافہ دیکھا گیا ہے۔ نتیجتاً، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جب 29 دسمبر کو کارروائی دوبارہ شروع ہوئی، اب تک 13000 سے زائد افراد موصل سے باہر جا چکے ہیں۔
اکتوبر سے اب تک، اتحادی افواج نے شہر کے ایک چوتھائی کے قریب علاقے کو واگزار کرا لیا ہے، جب کہ نئے مضافات کی حدود میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی جاری ہے، ایسے میں جب داعش کے لڑاکوں کا موصل کے مشرقی علاقے سے صفایا کر دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان، اسٹیفن دجیر نے بدھ کے بتایا کہ جب سے فوجی کارروائی میں شدت آئی ہے، روزانہ بے دخل ہونے والوں کی شرح میں تقریباً 50 فی صد کی کمی آئی ہے؛ اب نقل مکانی کرنے والوں کی یومیہ تعداد 2300 کی جگہ تقریباً 1600 رہ گئی ہے‘‘۔
جاری فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں تقریباً 130000 افراد موصل چھوڑ چکے ہیں، جن میں زیادہ تر کا تعلق مشرقی اضلاع سے ہے، جنھیں پہلے ہی عراقی افواج آزاد کرا چکی ہیں۔
دجیر کے مطابق، موصل کے مضافات میں ہر روز پانی کے 1000 کیوبک میٹر، اور ساتھ ہی غذا اور دیگر اشیاٴ فراہم کی جا رہی ہیں۔