امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں پیر کو ہزاروں افراد نے گزشتہ ماہ پولیس کی تحویل میں ہلاک ہونے والے جارج فلائیڈ کی آخری رسومات میں شرکت کی اور ان کا آخری دیدار کیا۔
جارج فلائیڈ کا تابوت ایک چرچ میں رکھا گیا تھا جہاں لوگ جوق درجوق آ کر اُنہیں خراجِ عقیدت پیش کرتے رہے۔
جارج فلائیڈ کے آخری دیدار کے لیے آنے والے بیشتر لوگوں نے کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ماسک پہنے ہوئے تھے۔ ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے جارج فلائیڈ کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔
گریگ ایبٹ نے بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فلائیڈ کی موت رائیگاں نہیں جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ پولیس اصلاحات کے معاملے میں فلائیڈ کے اہلِ خانہ کی رائے بھی شامل کریں گے۔
چرچ کے باہر تقریب کے منتظمین کی جانب سے جارج فلائیڈ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے پھول بھی رکھے گئے تھے۔ سفید رنگ کے پھولوں سے 'بی ایل ایم' کے حروف تہجی لکھے گئے تھے جن کا مطلب تھا 'بلیک لائیوز میٹر۔'
فلائیڈ کی تدفین منگل کو ہیوسٹن میں کی جائے گی۔ ہیوسٹن فلائیڈ کی جائے پیدائش بھی ہے اور یہیں انہوں نے اپنی زندگی کا ابتدائی عرصہ گزارا تھا۔
ادھر فلائیڈ کے اہلِ خانہ کے وکیل بینجمن کرمپ نے پیر کو جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ میں 2020 کے صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹ جماعت کے ممکنہ امیدوار جو بائیڈن نے ہیوسٹن میں فلائیڈ کے لواحقین سے پیر کو ایک گھنٹہ ملاقات کی۔
کرمپ کا کہنا تھا کہ بائیڈن نے فلائیڈ کے رشتہ داروں کا دکھ سنا اور ان کے غم میں شریک ہوئے۔
دوسری جانب جارج فلائیڈ کے قتل کے الزام میں گرفتار منی ایپلس پولیس کے اہلکار ڈیرک چاون کو بھی پیر کو پہلی مرتبہ عدالت میں پیش کیا گیا۔ ڈیرک وہی پولیس افسر ہیں جنہوں نے 25 مئی کو جارج فلائیڈ کی گردن پر تقریباً نو منٹ تک اپنا گھٹنا رکھا تھا۔
ڈیرک چاون پر سیکنڈ ڈگری مرڈر کے الزام کے تحت مقدمہ زیرِ سماعت ہے۔
چاون کو سیکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر عدالت نہیں لایا گیا بلکہ اُنہیں ویڈیو لنک کے ذریعے سماعت کا حصہ بنایا گیا۔ چاون تقریباً 11 منٹ تک سماعت میں شریک ہوئے۔ وہ جیل میں ہی ایک میز کے قریب بیٹھے ہوئے تھے اور انہیں ہتھکڑی لگی ہوئی تھی۔ چاون نے کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ماسک بھی پہنا ہوا تھا۔
سماعت کے دوران عدالت نے ڈیرک چاون کی 10 لاکھ ڈالرز کے عوض ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں 29 جون کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
حکام نے جارج فلائیڈ کی گرفتاری کے وقت موقع پر موجود منی ایپلس پولیس کے تین دیگر اہلکاروں کو بھی مقدمے میں نامزد کر رکھا ہے۔
فلائیڈ کی موت کے بعد سے امریکہ بھر میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں جن میں فلائیڈ کی موت کے ذمہ داران کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ امریکہ میں پولیس کے نظام میں اصلاحات کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔
جارج فلائیڈ کی موت کے خلاف احتجاج کرنے والے امریکی مظاہرین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے دنیا کے کئی دیگر ملکوں میں بھی احتجاج ہو رہا ہے۔