امریکہ کا کہنا ہے کہ عراق میں تعینات امریکی فورسز کو ایران نواز ملیشیا سے اب بھی خطرات لاحق ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق عراق میں امریکہ کے زیر انتظام فوجی اڈوں اور دارالحکومت بغداد میں سفارت خانے سے ملحقہ علاقوں میں روزانہ بنیاد پر شیلنگ ہو رہی ہے۔
پیر کو بھی عراق کے جنوبی علاقے میں غیر ملکی آئل کمپنیوں کے ملازمین کے گھروں کے قریب تین راکٹ داغے گئے۔ تاہم اس حملے میں کسی قسم کا جانی و مالی نقصان نہیں ہوا تھا۔
امریکی وزارتِ خارجہ کے سینئر سفیر برائے مشرقِ وسطیٰ ڈیوڈ شینکر نے ان حملوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ امریکہ کو ایران نواز ملیشیا سے خطرات اب تک لاحق ہیں۔
صحافیوں کے ساتھ کی جانے والی ٹیلی کانفرنس میں انہوں نے ان خطرات کی تفصیلات کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
امریکی سفیر کا یہ بیان امریکی صدر ٹرمپ کے ایران یا اس کے اتحادیوں کی طرف سے ممکنہ حملے سے متعلق خبردار کیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے ایران اور اس کے اتحادیوں کو عراق میں امریکی ٹھکانوں پر حملوں سے متعلق خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ان حملوں کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ تاہم صدر ٹرمپ کی طرف سے ان خطرات کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی تھیں۔
ڈیوڈ شنکر کا پچھلے ماہ مارچ میں کہنا تھا کہ عراق، امریکی افواج کے تحفظ میں بری طرح ناکام رہا ہے۔ جس کی وجہ سے واشنگٹن کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔
عراق کے صدر برہام صالح نے جمعرات کو انٹیلی جنس چیف مصطفی الخادمی کو وزیرِ اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا ہے۔ ان کی نامزدگی پر شینکر نے کہا ہے کہ وہ ایک عراقی قوم پرست ہیں۔ اگر وہ بد عنوانی کے خلاف جنگ کے لیے پر عزم ہیں تو یہ عراق کے لیے بہت اچھا ہوگا۔
شینکر کا مزید کہنا تھا کہ یہ عراق اور امریکہ کے تعلقات کے لیے بھی بہت مفید ہو گا۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس عراقی حکومت کے خلاف مظاہروں کے نتیجے میں وزیرِ اعظم عادل عبدالمہدی نے مستعفی ہونے کااعلان کیا تھا۔ جس کے بعد سے اب تک عراق میں حکومت نہیں بن سکی۔ جب کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران مصطفی الخادمی، عراقی صدر کی طرف سے وزیرِ اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیے جانے والے تیسرے شخص ہیں۔
اس ہفتے کے آغاز میں امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایران کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی بحالی کے لیے رواں سال جون میں مذاکرات شروع کرنے کی تجویز دی تھی۔