دنیا بھر میں شیر تیزی سے کم ہورہے ہیں ۔جنگلی حیات کے تحفظ کی عالمی تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف کی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں شیروں کی تعداد اپنی کم ترین سطح پرہے۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ شیروں کی نسل کو کرہ ارض سے مٹنے سے بچانے کے لیے دنیا کے پاس صرف 12 سال باقی ہیں۔
شیر کو جنگل کا بادشاہ کہاجاتا ہے، لیکن 1900ء کے بعدصنعتی ترقی کی لہر نے شیراور انسان دونوں کی بادشاہتوں کو ملیا میٹ کردیا۔ ایک صدی پہلے دنیا بھر میں جگہ جگہ بادشاہتیں قائم تھیں، اب ان کی تعداد محض انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ اسی طرح 1900ء میں دنیا بھر کے جنگلوں میں شیروں کی تعداد کا تخمینہ ایک لاکھ تھا ، جب کہ وائلڈ لائف کی تازہ رپورٹ کے مطابق اب یہ تعداد گھٹ کر صرف3200 رہ گئی ہے۔
اس وقت دنیا میں باقی رہ جانے والے اکثر شیر صرف نام کے شیر ہیں ، کیونکہ وہ جنگلوں کی بجائے چڑیاگھروں ، قدرتی پارکوں، سرکسوں اور بعض لوگوں کے پاس ایک پالتو جانور کی حیثیت سے زندگی گذار رہے ہیں ،اور وہ اپنا شکار خود کرنے کی بجائے ان کے فراہم کردہ گوشت پر صرف قناعت ہی نہیں بلکہ تشکر کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بلی کی شکل کے متشا بہ اس شیر یا ٹائیگر کی نسل کو، جسے بعض علاقوں میں بڑا جنگلی بلا بھی کہاجاتا ہے،دنیا سے مٹنے کا خطرہ لاحق ہےاوراسے بچانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔جن میں ان کے شکار پر فوری پابندی کا اطلاق شامل ہے۔
ورلڈ وائلڈ لائف کا کہنا ہے کہ اس وقت شیر وں کی ایک مختصر تعداد چین، بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، روس، انڈونیشیا اور ملائیشیا میں موجود ہے۔ ادارے نے ان ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کی موجودہ تعداد کو 2022ء تک دوگنا کرنے کے اقدامات کریں، تاکہ اس نسل کو مٹنے سے بچایا جاسکے۔
عالمی ادارے کا کہناہے کہ ملائیشیااور انڈونیشیا کے جنگلوں میں رہنے والی شیروں کی ایک نایاب قسم کو پام آئل، ربڑ اور کاغذ بنانے والی کمپنیوں سے خطرہ ہے ، جو وہاں جنگلوں کو پڑے پیمانے پر کاٹ رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں وہ علاقے جنہیں کبھی شیروں کا گھر سمجھا جاتا تھا، وہاں بڑے پیمانے پر سڑکیں، اور ڈیم تعمیر ہورہے ہیں ، صنعتیں لگ رہی ہیں اور آبادیاں پھیل رہی ہیں،جس سے شیروں کے لیے جگہ سکڑتی جارہی ہے اور ان کی بقا خطرے میں پڑ رہی ہے۔
عالمی ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ شیروں کی نسل کو ان شکاریوں سے بھی خطرہ ہے جو ان کی کھال ہڈیوں اور جسمانی اعضاءحاصل کرنے کے لیے انہیں بے دریغ ہلاک کررہے ہیں۔ بعض ملکوں میں شیر کی ہڈیوں اور جسمانی اعضا کو دوائیں بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ شیروں کی نسل کو درپیش ایک خطرہ آب وہوا میں عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیاں ہیں، جس کا ایک بڑا نشانہ بنگلہ دیش کے سندر بن کے جنگلات بن رہے ہیں،جو نایاب شیروں کا مسکن ہیں۔
چین میں پائے جانے والے شیروں کی تین اقسام کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ انہیں آخری بار1940ء میں دیکھا گیا تھا، جب کہ ایک چوتھی نایاب قسم کے بارے میں بتایا گیا ہے اس نسل کے شیر بھی گذشتہ 25 سال سے نظر نہیں آئےاور خدشہ یہی ہے کہ ان کی نسل بھی دنیا سے مٹ چکی ہے۔
اس سال کے شروع میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیاتھا کہ چین کے جنگلوں میں اب محض 50 شیر باقی رہ گئے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت چڑیاگھروں، مصنوعی پارکوں اور نجی طور پر رکھے ہوئے شیروں کی تعداد آزاد فضاؤں میں شیروں جیسی زندگی گذارنے والے شیروں سے کہیں زیادہ ہے۔ ماہرین کے مطابق صرف امریکہ میں ان کی تعداد کا اندازہ پانچ ہزار سے زیادہ ہے۔
شیروں کی نسل کو مٹنے سے بچانے کے لیے موجودہ سال، شیروں کے تحفظ کے سال کے طورپر منایا جارہاہے۔اس سلسلے میں ستمبر میں سینٹ پیٹربرگ میں شیروں کے تحفظ پر پہلی عالمی سربراہ کانفرنس منقعد کی جارہی ہے جس میں دنیا کے وہ 13 ممالک شرکت کریں گے جہاں شیر پائے جاتے ہیں۔