امریکہ کے وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا ہے کہ شام کے معاملے پر روس یا تو امریکہ اور ہم خیال ممالک کے ساتھ کھڑا ہو یا پھر ایران، عسکریت پسند گروپ حزب اللہ اور لڑائی سے دوچار شامی راہنما بشار الاسد کا ساتھ دے۔
اٹلی میں دنیا کے سات بڑے صنعتی ملکوں پر مشتمل گروپ سیون "جی سیون" کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس کے موقع پر شام کی صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیے علیحدہ سے ایک ہنگامی اجلاس کا انعقاد کیا گیا جس میں "ہم خیال" ممالک کے عہدیداروں نے شرکت کی۔
اجلاس میں گروپ سیون کے ارکان کے علاوہ اردن، قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ترکی کے عہدیدار بھی شریک تھے۔
منگل کو اٹلی میں ہم خیال ممالک کے ایک ہنگامی اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ واضح نہیں کہ آیا روس واقعی ہی شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی تلفی کی ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہا یا یہ صرف اس کی "نااہلی" تھی۔
لیکن ان کے بقول اس سے "(کیمیائی حملے میں) مرنے والوں کو کچھ زیادہ فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔ہم یہ دوبارہ ہونے نہیں دینا چاہتے۔"
گزشتہ ہفتے شام کے قصبے خان شیخون میں ہونے والے کیمیائی حملے کا الزام صدر بشارالاسد پر عائد کرتے ہوئے امریکہ نے ردعمل کے طور پر شامی فضائی اڈے پر کروز میزائلوں سے کارروائی کی تھی۔
اس معاملے پر روس اور امریکہ کے درمیان لفظوں کی جنگ دیکھنے میں آ رہی ہے اور ماسکو امریکی کارروائی کو ایک خودمختار ملک کے خلاف "جارحیت"قرار دیتا ہے۔
امریکی وزیرخارجہ کا مزید کہنا تھا کہ "ہم شام کے عوام کی تکلیفوں کو دور کرنا چاہتے ہیں۔ روس اس مستقبل کا حصہ بن سکتا ہے اور اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔۔۔یا پھر روس ان گروپوں کے ساتھ اپنا اتحاد برقرار رکھے جو کہ ہمارے خیال میں روس کے طویل المدت مفاد میں نہیں ہوگا۔"
ٹلرسن بدھ کو روس کے دورے پر روانہ ہو رہے ہیں۔