رسائی کے لنکس

کراچی ٹمبر مارکیٹ آتشزدگی، سینکڑوں افراد متاثر


واقعے میں، 427 دکانیں خاکستر ہوئیں، جبکہ نقصان کا تخمینہ کروڑوں روپے بتایا جارہا ہے۔ یہ پاکستان کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ مجموعی طور پر، یہاں لکڑی کی 2000 دکانیں ہیں

کراچی کی ٹمبر مارکیٹ میں آتشزدگی کے واقعے نے درجنوں افراد کی زندگیوں کا رخ بدل دیا ہے۔ جو لوگ کئی کئی مکانات اور بلڈنگز کے مالک تھے، وہ راتوں رات بے یار و مددگار سڑک پر آ کھڑے ہوئے ہیں۔ ایک ہی رات نے ان کا سب کچھ جلا کر بھسم کر دیا ہے۔

متاثرین کی آپ بیتی
پرانا حاجی کیمپ کی ’جھاڑو گلی‘ میں واقع اسماعیل بلڈنگ نمبر سات کی مالک معراج بانو کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو ہفتے کی رات پیش آنے والے اس واقعہ کے بعد سے اب تک نہیں رکے۔ وہ بار بار یہی کہتی ہیں کہ ۔۔۔ایک ہی رات نے ان کا سب کچھ جلاکر راکھ کردیا۔۔کل تک عمارت کے مالک تھے آج سڑک پر آکھڑے ہوئے۔۔۔‘

وائس آف امریکہ سے ان لمحات کا کرب بیان کرتے ہوئے، وہ کہتی ہیں: ’جس وقت آگ لگی ۔۔پورے محلے میں چیخ و پکار مچی تھی۔۔میں سو رہی تھی۔ شور سے آنکھ کھلی تو پہلے یہ سمجھی شاید زلزلہ آگیا ہے ۔۔پھر کھڑکی سے برابر والی عمارت میں شعلے بلند ہوتے دیکھے تو اپنے شوہر۔۔عبدالستار۔۔ کو آوازیں دیتی چھت کی طرف بھاگی۔۔بچوں کی۔۔اور باقی لوگوں کی فکر تھی۔ چھت پر پہنچی تو چار منزلوں جتنی آگ بھڑکتی دیکھی۔ میرے تو اوسان ہی خطا ہوگئے۔ برقعہ۔۔ورقعہ۔۔سب چھوڑ چھاڑ چادر میں ہی سب گھر والوں کو لیکر نیچے بھاگی چلی آئی۔ یہ برقع بیٹی کا ہے ۔۔گھر میں کچھ نہیں بچا۔۔نا سامان، نہ پائی پیسہ۔“

معراج بانو نے مزید بتایا کہ ’اسماعیل بلڈنگ نمبر سات ان سے پہلے ان کے سسر کی ملکیت تھی۔ عمارت کے بالکل پیچھے ٹمبر مارکیٹ ہے جہاں آگ لگی اور جس نے دیکھتے ہی دیکھتے آس پاس کی عمارتوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔چونکہ، ان کی بلڈنگ کی دیوار مارکیٹ کی دیوار سے ملتی ہے۔ لہذا، مارکیٹ کی آگ بھڑک کر کھڑکی اور دروازوں سے ہوتی ہوئی ہماری عمارت کے اندر تک چلی آئی۔ عمارت کی نچلی دکانوں اور فلیٹس میں زیادہ تر لکڑی اور اس سے بننے والا مختلف سامان رکھا تھا جس پر کیمیکل بھی لگا تھا جو آگ بھڑکنے کا سبب بنا۔‘

معراج بانو کے مطابق عمارت میں زیادہ تر متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کرائے دار مقیم تھے، جن کی آمدنی کا واحد ذریعہ لکڑی کا کام تھا۔ وہ لوگ بھی بے روزگار ہوگئے ہیں۔ ہماری طرح ہی وہ بھی اپنے اپنے رشتے داروں کے گھر چلے گئے ہیں۔ کسی کے پاس دو وقت کی روٹی کے بھی پیسے نہیں بچے۔ برتن، کپڑے، سامان، فرنیچر، بستر، تکیہ، گدے، لحاف سب کچھ جل کر ختم ہوگیا۔ سردی سے بچنے کے لئے ایک کمبل تک نہیں بچا۔‘

مستقبل غیر محفوظ ، دوسرے علاقوں میں منتقلی شروع
معراج بانو کی طرح ہی ان کی گلی کے کئی اور مکانات بھی آگ سے بری طرح تباہ ہوگئے ہیں۔ ان لوگوں نے بھی اپنے اپنے عزیزوں کے یہاں پناہ لی ہے، جبکہ گلی کے کچھ لوگ خاص کر کرائے دار پیر کی شام تک حفاظتی اقدام کے طور پر دوسرے علاقوں میں جانے کے لئے اپنا سامان اور دیگر مال و متاع شفٹ کرتے نظر آئے۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ انہیں اپنا مستقبل بھی یہاں غیر محفوظ لگنے لگا ہے ۔

مارکیٹ کے ساتھ ساتھ عمارتیں بھی جل گئیں
آگ سے تباہ ہونے والی ٹمبر مارکیٹ جھاڑوگلی اور سومرو گلی سمیت کئی تنگ گلیوں سے متصل تھی اور چاروں طرف سے تین ، چار اور پانچ منزلہ رہائشی عمارتوں کے عین درمیان میں واقع تھی۔مارکیٹ میں لگنے والی آگ پھیل کر ان تمام عمارتوں تک پہنچی اور نیچے سے اوپر تک کے تمام فلیٹس مکینوں کو بری طرح متاثر کرگئی۔

بلڈنگ کے رہائشی افراد میں سے کئی لوگوں کی بیٹیوں کی عنقریب شادی ہونے والی تھی اور گھروں میں جہیز تک تیار کرلیا گیا تھا مگر آگ نے اسے بھی نہ چھوڑا۔ ادھر مارکیٹ میں کام کرنے والے ملازمین کی بھی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہوگئی ہے۔

آگ کے نتیجے میں تقریباً 10 لوگوں کے جھلسے جانے کی اطلاعات ہیں جن کا علاج قریبی سول اسپتال میں ہورہا ہے۔

حکومت کی جانب سے مالی امداد
پیر کو وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی جانب سے علاقہ مکنیوں کے لیے ایک لاکھ روپے روزمرہ اخراجات کے لیے دینے کا اعلان کیا گیا۔ یہ رقم ڈپٹی کمشنر جنوبی کی تصدیق شدہ لسٹ کے مطابق جاری ہوگی، جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما بابر خان غوری نے سندھ حکومت سے متاثرین کے لئے ہنگامی طور پر 25 لاکھ روپے فی گھر جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔

سندھ اسمبلی میں تحریک التوا جمع
ادھر ایم کیو ایم نے سانحہ ٹمبر مارکیٹ پر سندھ اسمبلی میں تحریک التوا جمع کرا دی۔ متحدہ کے رکن صوبائی اسمبلی خواجہ اظہار الحسن نے فوری طور پر تحقیقات شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

چار سو ستائس دکانیں خاکستر ، 2ارب کا نقصان
مقامی میڈیا رپورٹس میں کہا جا رہا ہے کہ واقعے میں 427 دکانیں خاکستر ہوئیں جبکہ نقصان کا تخمینہ کروڑوں روپے بتایا جا رہا ہے۔ یہ پاکستان کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ مجموعی طور پر یہاں لکڑی کی 2000 دکانیں ہیں۔

ابتدائی تخمینے کے مطابق، واقعے میں تقریباً 2 ارب روپے مالیت کی لکڑی اور تیار مصنوعات کوئلہ بن گئیں۔ ان کا انشورنس بھی نہیں تھا۔

اسباب ابھی تک سامنے نہیں آسکے
واقعے کے اصل اسباب ابھی تک سامنے نہیں آسکے ہیں، جبکہ دکانداروں اور تاجروں نے الزام عائد کیا ہے کہ فائربریگیڈ کی گاڑیاں ناصرف دیر سے پہنچیں، بلکہ ان کے پاس پانی بھی مطلوبہ مقدار میں موجود نہیں تھا۔ دکانداروں اور تاجروں نے حکومت سے نقصانات کے فوری ازالے کا مطالبہ کیا ہے۔

پی پی پی، متحدہ ۔۔نیا محاذ
ٹمبرمارکیٹ کی آگ نے سندھ کی دو بڑی جماعتوں کو بھی ’گرما‘دیا، یہاں تک کہ دونوں کے درمیان ایک نیا محاذ کھل گیا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنماوٴں فاروق ستار اور قمر منصور نے پریس کانفرنس میں پیپلز پارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے واقعہ پر آنکھیں موند لینے کا الزام لگایا اور کہا کہ وزراء کو استعفیٰ دے دینا چاہئے۔انہوں نے انتظامی معاملات میں غفلت برتنے کا بھی الزام عائد کیا۔

جوابی اخباری کانفرنس میں، حکومت سندھ کے ترجمان اور وزیر اطلاعات و بلدیات شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ الزامات میں کوئی صداقت نہیں۔ حکومت کی جانب سے آتشزدگی کے واقعے کی تحقیقات کے لئے کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی کی زیرصدارت کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔ کمیٹی رپورٹ کی روشنی میں متاثرین کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے گا۔

ادھر، پیر کی صبح ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین نے متاثرین کی امداد کے لئے اپنی پارٹی کی جانب سے لگائے جانے والے کیمپ میں موجود ارکان اسمبلی اور کارکنان سے ٹیلی فون پر گفتگو کی اور سندھ حکومت سے متاثرین کی جلد بحالی کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ حکومت ان لوگوں کی مشکل کا احساس کرے، جن کی زندگی بھر کی جمع پونجی جل کر راکھ ہو گئی ہے۔

XS
SM
MD
LG