ڈیموکریٹک اور ریپبلیکن صدارتی دوڑ کا فیصلہ کرنے کے لیے، منگل کے روز نیو ہیمپشائر میں پرائمری الیکشن کی ووٹنگ میں پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹروں کی بڑی قطاریں لگی رہیں۔
اِس شمال مشرقی ریاست کے بڑے شہر، مانچیسٹر سے تعلق رکھنے والے، کیتھ لینون کے بقول، ’’یہ انتہائی سرد، لیکن اچھا دِن تھا‘‘۔
اُنھوں نے بتایا کہ، ’’میں گیا اور ڈونالڈ ٹرمپ کو ووٹ ڈالا۔ مجھے یہ بھی پتا ہے کہ وہ سیاسی طور پر درست نہیں‘‘۔
گذشتہ روز ریاست دِن بھر طوفان اور برف باری کی زد میں رہی۔ 20 سینٹی میٹر برف پڑی جس کے باعث کچھ علاقوں میں سفر دشوار ہوگیا۔
ووٹ دینے کے بعد، لورین بومن ایک روستوران میں کھانا کھا رہی تھیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ لوگ پولنگ اسٹیشنوں پر آتے رہے اور خراب موسم اُن کے آڑے نہیں آیا۔
بقول اُن کے، ’’ووٹنگ کے لیے آنے والے کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ تاہم، وہ زیادہ دیر نہیں رکتے تھے۔ مجھے اپنے پسند پر فخر ہے۔ میں نے ہلری کلنٹن کو ووٹ دیا۔ مجھے اس میں کبھی کوئی شک نہیں رہا ‘‘۔
اس سے قبل موصولہ رپورٹ کے مطابق، منگل کے پہلے چند گھنٹوں میں نیو ہیمپشائر کے تین چھوٹے قصبوں میں شہریوں نے اپنے ووٹ ڈال کر پرائمری انتخاب کا آغاز کر دیا جو وائٹ ہاؤس تک پہنچنے کے خواہشمند کئی امیدواروں کی امنگوں پر پانی پھیر سکتا ہے یا انہیں سنوار سکتا ہے۔
ڈکس وِل نوچ کی انتہائی قلیل آبادی کے ووٹوں کی گنتی آسان تھی۔ یہاں رپبلیکن امیدوار اوہائیو کے گورنر جان کیسک نے دو کے مقابلے میں تین ووٹوں سے ڈونلڈ ٹرمپ کو ہرا دیا۔ جبکہ ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر برنی سینڈرز نے تمام چار ووٹ اپنے نام کیے۔
ہارٹس لوکیشن نامی قصبے میں بھی کیسک اور سینڈرز نے فتح حاصل کی۔
سابق وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے ملسفیلڈ میں سینڈرز کو ایک کے مقابلے میں دو ووٹوں سے ہرایا جبکہ ٹیکساس کے سینیٹر ٹیڈ کروز نے ٹرمپ کو تین کے مقابلے میں نو ووٹوں سے ہرایا۔
رائے شماری سے پہلے ہونے والے عوامی جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈیموکریٹک دوڑ میں سینڈرز کلنٹن سے آگے ہیں اگرچہ ان کی مقبولیت میں پہلے سے کمی واقع ہوئی ہے۔
دوسری طرف رپبلیکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ باقی امیدواروں سے بہت آگے ہیں جبکہ پارٹی کے دیگر پانچ سے چھ امیدوار دوسری پوزیشن کے لیے مقابلہ کر رہے ہیں۔
پیر کو نیو ہیمپشائر میں طوفان اور برفباری کے باوجود امیدواروں نے اپنی مہم جاری رکھی اور مختلف تقریبات میں شرکت کی۔
منگل کے انتخاب کے بارے میں ابھی کئی ووٹروں نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ کسے ووٹ دیں گے۔
مون ماؤتھ یونیورسٹی کے ایک جائزے کے مطابق رپبلیکن پارٹی کے صرف نصف ووٹروں نے اس بات کا فیصلہ کیا ہے کہ وہ کسے ووٹ دیں گے۔ ڈیموکریٹک پارٹی میں یہ تعداد 60 فیصد سے کچھ زائد ہے۔
غیر یقینی کی ایک اور وجہ وہ 44 فیصد ووٹر ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو کسی پارٹی کے ساتھ رجسٹر نہیں کرایا اور وہ کسی بھی پارٹی کی پرائمری میں ووٹ دے سکتے ہیں۔