واشنگٹن —
مجھے چند روایت پسند لوگوں نےکینیڈا میں یہ مشورہ دیا کہ پروفیسر کرسٹین بایکو ہیڈ کی کلاس اٹینڈ نہیں کرنا۔ کینیڈا کی براک یونیورسٹی میں کلچرل سٹڈیز اور کنیڈین سٹڈیز پڑھانے والی پروفیسر کرسٹین بایکوہیڈ ایک ایسی پروفیسر تھیں جن کا لیکچر سننے کے بعد مذہب، قومیت اور شناخت کے بارے میں طالب علموں کے ذہن میں کچھ عجیب و غریب سوالات پیدا ہو جاتے تھے۔ اسی وجہ سے ہماری یونیورسٹی میں یہ پروفیسر زیادہ مقبول نہیں تھیں۔
شاید میں پہلا مسلمان تھا جس نے پروفیسر کرسٹین بایکوہیڈ کی کلاس اٹینڈ کی۔ ایک متنازعہ شخصیت ہونے کے باوجود یہ میری پسندیدہ پروفیسر رہیں۔ ان سے دو سال پڑھنے کے بعد میں لا مذہب تو نہیں ہوا مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ جس تہذیب کے دائرے میں رہ کر زیادہ تر مسلمان دنیا کے بارے میں سوچتے ہیں میں اپنے آپ کو اس سے بہت باہر محسوس کرتا ہوں۔
بہت ممکن ہے کہ جیسے جیسے میرے اس بلاگ کا سلسہ آگے بڑھے بہت سے لوگ اس سے اختلاف کریں اور شاید ناراض بھی ہوں۔ مگر سب سے پہلی بات جو ایک صحافی کو یونیورسٹی میں سکھائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ معاشرے کی قبولیت حاصل کرنا ہمارا کام نہیں ہے۔ اگر آپ ایک سچے صحافی بننا چاہتے ہیں تو یہ سمجھ لیجیے کہ آپ کا کوئی بھی دوست نہیں ہو گا۔
کسی بھی علاقے کی تہذیب اس میں رہنے والوں کے خیالات اور تصورات کو اس انداز میں تشکیل دیتی ہے کہ اس تہذیب کو ان خیالات سے نہیں سمجھا جا سکتا جو اس کی اپنی پیداوار ہیں۔ اسی وجہ سے میڈیا میں کلچرل سٹڈیز اور کلچرل کرٹسزم جیسے مضامین کی کوشش ہوتی ہے کہ انسانی سوچ کو ایک مخصوص دائرے سے باہر نکالا جائے تاکہ وہ تہذیب کو اس کے باہر سے دیکھ سکے۔ آج یہی میری پوزیشن ہے۔ یعنی ایک ایسا شخص جو مشرقی تہذیب کی طے شدہ حدود پھلانگ کر باہر نکل چکا ہے۔
سب سے پہلی چیز جو مجھے یہاں سے نظر آتی ہے وہ یہ کہ کسی بھی علاقے کے عوام جتنی کم تعلیم یافتہ ہوتی ہے اس کے لیے اپنی ثقافت اتنی ہی مقدس ہوتی ہے۔ قومیں جیسے جیسے تعلیم یافتہ ہوتی جاتی ہیں ان کے لیے اپنی علاقائی ثقافت غیر ضروری ہوتی جاتی ہے۔ اجتماعی سوچ کے اسی سفر میں ایک منزل وہ بھی آتی ہے جب انسان کو اپنی ثقافت بری لگنی شروع ہو جاتی ہے۔ اور اسے بغاوت پر مجبور کرتی ہے۔ اسے ترقی کہا جاتا ہے۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو شخص مشرقی تہذیب میں کیڑے نکال رہا ہو گا وہ مغربی تہذیب کا ضرور پابند ہو گا۔ اعلیٰ ہذالقیاس۔۔ ہم جس زاویہ سے دنیا کے بارے میں سوچتے ہیں اس میں ہم نے اپنی دنیا کو انہی دو حصوٕں میٕں تقسیم کیا ہوا ہے۔ یعنی مشرق اور مغرب۔ مگر مغرب کی ایک بات تو مجھے بہت پسند آئی اور وہ یہ کہ یہاں منطق کا بول بالا ہے۔
یہ میرا اس سلسلے کا پہلا بلاگ ہے اور جیسے جیسے اس بلاگ کا سلسلہ آگے بڑھے گا میں آپ کو مشرقی تہذیب کی وہ شکل دکھاؤں گا جو مجھے نظر آتی ہے۔ جو چیز پسند آئے وہ اٹھا لیجیے گا باقی باتیں یہ کہہ کر الگ رکھ دیں کہ یہ شخص تو ہے ہی تہذیب کے دائرے سے باہر۔
شاید میں پہلا مسلمان تھا جس نے پروفیسر کرسٹین بایکوہیڈ کی کلاس اٹینڈ کی۔ ایک متنازعہ شخصیت ہونے کے باوجود یہ میری پسندیدہ پروفیسر رہیں۔ ان سے دو سال پڑھنے کے بعد میں لا مذہب تو نہیں ہوا مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ جس تہذیب کے دائرے میں رہ کر زیادہ تر مسلمان دنیا کے بارے میں سوچتے ہیں میں اپنے آپ کو اس سے بہت باہر محسوس کرتا ہوں۔
بہت ممکن ہے کہ جیسے جیسے میرے اس بلاگ کا سلسہ آگے بڑھے بہت سے لوگ اس سے اختلاف کریں اور شاید ناراض بھی ہوں۔ مگر سب سے پہلی بات جو ایک صحافی کو یونیورسٹی میں سکھائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ معاشرے کی قبولیت حاصل کرنا ہمارا کام نہیں ہے۔ اگر آپ ایک سچے صحافی بننا چاہتے ہیں تو یہ سمجھ لیجیے کہ آپ کا کوئی بھی دوست نہیں ہو گا۔
کسی بھی علاقے کی تہذیب اس میں رہنے والوں کے خیالات اور تصورات کو اس انداز میں تشکیل دیتی ہے کہ اس تہذیب کو ان خیالات سے نہیں سمجھا جا سکتا جو اس کی اپنی پیداوار ہیں۔ اسی وجہ سے میڈیا میں کلچرل سٹڈیز اور کلچرل کرٹسزم جیسے مضامین کی کوشش ہوتی ہے کہ انسانی سوچ کو ایک مخصوص دائرے سے باہر نکالا جائے تاکہ وہ تہذیب کو اس کے باہر سے دیکھ سکے۔ آج یہی میری پوزیشن ہے۔ یعنی ایک ایسا شخص جو مشرقی تہذیب کی طے شدہ حدود پھلانگ کر باہر نکل چکا ہے۔
سب سے پہلی چیز جو مجھے یہاں سے نظر آتی ہے وہ یہ کہ کسی بھی علاقے کے عوام جتنی کم تعلیم یافتہ ہوتی ہے اس کے لیے اپنی ثقافت اتنی ہی مقدس ہوتی ہے۔ قومیں جیسے جیسے تعلیم یافتہ ہوتی جاتی ہیں ان کے لیے اپنی علاقائی ثقافت غیر ضروری ہوتی جاتی ہے۔ اجتماعی سوچ کے اسی سفر میں ایک منزل وہ بھی آتی ہے جب انسان کو اپنی ثقافت بری لگنی شروع ہو جاتی ہے۔ اور اسے بغاوت پر مجبور کرتی ہے۔ اسے ترقی کہا جاتا ہے۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو شخص مشرقی تہذیب میں کیڑے نکال رہا ہو گا وہ مغربی تہذیب کا ضرور پابند ہو گا۔ اعلیٰ ہذالقیاس۔۔ ہم جس زاویہ سے دنیا کے بارے میں سوچتے ہیں اس میں ہم نے اپنی دنیا کو انہی دو حصوٕں میٕں تقسیم کیا ہوا ہے۔ یعنی مشرق اور مغرب۔ مگر مغرب کی ایک بات تو مجھے بہت پسند آئی اور وہ یہ کہ یہاں منطق کا بول بالا ہے۔
یہ میرا اس سلسلے کا پہلا بلاگ ہے اور جیسے جیسے اس بلاگ کا سلسلہ آگے بڑھے گا میں آپ کو مشرقی تہذیب کی وہ شکل دکھاؤں گا جو مجھے نظر آتی ہے۔ جو چیز پسند آئے وہ اٹھا لیجیے گا باقی باتیں یہ کہہ کر الگ رکھ دیں کہ یہ شخص تو ہے ہی تہذیب کے دائرے سے باہر۔