جب میں نے ان 10 کہانیوں پر اپنی رپورٹ مکمل کی تو مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اتنے مختلف علاقوں میں، اتنے مختلف ادوار میں لکھی ہوئی کہانیوں میں اگر کوئی چیز مشترک تھی، تو وہ تھا لفنگا!!
کائنات میں بہت سی چیزوں کا وجود اپنے آپ کو اس شکل میں ظاہر ہی نہیں کرتا کہ ہمارے پانچ انسانی احساسات اس کو محسوس کرسکیں۔
زہرا شاہد سے میری پہلی ملاقات ایک ہاتھا پائی کے دوران ہوئی تھی۔
اگر پوری مشرقی تہذیب ایک آدمی ہو تو یہ ایک نہایت خوف زدہ انسان ہو گا۔ تبدیل ہوتی دنیا سے ڈرا ہوا اور ایسی نفسیاتی پناہ گاہ کی تلاش میں جہاں اس سے مسلسل تبدیلی کا مطالبہ نہ کیا جارہا ہو۔
کلاس کے بعد ایک چیز تو سمجھ میں آنا شروع ہوگئی کہ قومیں تاریخ کی غلط فہمیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں اور تہذیبیں اس سے کہیں زیادہ پرانی اور بڑی غلط فہمیوں کے بعد وجود میں آتی ہیں۔
جیو ٹی وی آنے سے پہلے علامہ اقبال پر صرف وہی گفتگو ممکن تھی جس کی مشرقی تہذیب، سعودی عرب کے وظیفہ خوار علما اور تخت پر بیٹھے حکمران اجازت دیتے تھے۔
’وہ اقدار جنہیں مشرقی تہذیب کہا جاتا ہے نوجوان نسل کے لیے نہیں بنائے گئے۔ یہ دراصل بوڑھوں کے لیے وضع کیے گیے ہیں‘
شاید میںٕ واحد مسلمان تھا جس نے پروفیسر کرسٹین بایکو ہیڈ کی کلاس اٹینڈ کی۔ ایک متنازعہ شخصیت ہونے کے باوجود وہ میری پسندیدہ پروفیسر رہیں
کینیڈا کی براک یونیورسٹی میں کلچرل سٹدیذ اور کنیڈین سٹدیز پڑھانے والی پروفیسر کرسٹین بایکوہیڈ ایک ایسی خطرناک پروفیسر تھیں جن کا لیکچر سننے کے بعد مزہب، قومیت اور شناخت ان تمام کے بارے میں ان کے طالب علموں کے زہن میں کچھ عجیب و غریب قسم کے سوالات پیدا ہو جاتے تھے...