افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر نے کہا ہے کہ افغانستان میں تعینات غیر ملکی فوجی دستوں کو افغان تنازع کے خاتمے کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری امن مذاکرات کے مثبت اور منفی دونوں طرح کے نتائج کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
افغانستان میں امریکی اور بین الاقوامی افواج کے کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر نے یہ بات منگل کو کابل میں نیٹو کے فوجی دستوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
اس موقع پر انہوں نے افغان تنازع کے حل کے لیے سیاسی تصفیے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
خبر رساں ادارے 'رائٹر' کے مطابق جنرل ملر نے کابل میں 'ریزولوٹ سپورٹ مشن' کے صدر دفتر میں تربیتی مشق کے لیے جمع نیٹو فوجیوں سے گفتگو میں کہا، "امن بات چیت ہو رہی ہے، علاقائی اسٹیک ہولڈرز امن پر زور دے رہے ہیں، طالبان امن کی بات کر رہے ہیں، افغانستان کی حکومت امن کی بات کررہی ہے۔"
تاہم انہوں نے اپنی گفتگو کے دوران ان اطلاعات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا کہ امریکہ افغانستان میں تعینات اپنے 14 ہزار فوجی اہلکاروں میں سے تقریباً نصف کے انخلا پر غور کر رہا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی فوجیوں کے افغانستان سے انخلا کا کوئی حکم نہیں دیا ہے۔
اپنی گفتگو میں اسکاٹ ملر کا کہنا تھا کہ نیٹو فوجی دستوں کو 2019ء میں یہ سوچنا ہے کہ وہ مثبت یا منفی، دونوں طرح کے نتائج کی صورت میں کیسے افغانستان کی صورتِ حال کے لیے مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔
افغانستان میں گزشتہ 17 سال سے جاری لڑائی کے خاتمے کے لیے امریکہ اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان اب تک تین بار مذاکرات ہو چکے ہیں میں جن میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور 2019 ء میں عارضی جنگ بندی کی تجاویز پر بات چیت ہوئی ہے۔
تاہم افغان تنازع کے حل کے لیے ہونے والی سفارتی کوششوں کے باجود افغانستان میں جاری لڑائی کی شدت میں کوئی کمی نہیں دیکھی گئی ہے۔
افغانستان میں امریکی فورسز کے ترجمان کرنل ڈیوڈ بٹلر کا کہنا ہے کہ "جب تک طالبان لڑنا چاہتے ہیں ہم لڑتے رہیں گے۔"
تاہم انہوں نے کہا کہ 2019ء افغانستان میں امن کے لیے ایک منفرد موقع فراہم کر سکتا ہے جو ان کے بقول گزشتہ 40 سال سے حالتِ جنگ میں ہے۔
رائٹرز سے گفتگو میں کرنل بٹلر نے کہا کہ "اس کے بارے میں سوچیں۔۔۔ 40 سال سے جاری جنگ ممکنہ طور ختم ہو سکتی ہے۔"
دوسری طرف افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کی اطلاعات کے بعد افغانستان کے ہمسایہ ملکوں نے اس صورت میں پیدا ہونے والی ممکنہ صورتِ حال سے نمٹنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔
سفارتی حلقوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر امریکی فوج افغانستان سے نکلی تو پڑوسی ملکوں کو افغان مہاجرین کے ایک اور سیلاب کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
افغانستان سے غیر ملکی افواج کے غیر منظم انخلا کے ممکنہ خدشے کے پیشِ نظر خطے کے بعض ممالک کے سفارت کاروں نے، جو کابل میں امریکی حکام کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں، کہا ہے کہ وہ اپنی پالیسوں کو جائزہ لے رہے ہیں جس میں سرحدوں کی نگرانی بھی شامل ہے۔
کابل میں تعینات ایک ایشیائی ملک کے اعلیٰ سفارت کار نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے بات کرتے ہوئے کہا، "اس وقت (افغانستان سے) انخلا کے بارے میں صورتِ حال واضح نہیں ہے۔ تاہم ہمیں ایک واضح لائحۂ عمل کے لیے تیار رہنا ہے" کیوں کہ ان کے بقول "صورتِ حال بہت تیزی سے خراب سے خراب تر ہو سکتی ہے۔"
اگرچہ امریکی حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے افغانستان سے فوجی انخلا کی کوئی ہدایت نہیں دی ہے، خطے کے ممالک میں افغانستان کے مسقبل سے متعلق تشویش پائی جاتی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ علاقائی ممالک بشمول روس، ایران اور پاکستان بھی جنہیں افغانستان میں امریکہ کے مستقل فوجی اڈوں کے ممکنہ قیام پر تحفظات رہے ہیں، اب نہیں چاہتے کہ امریکہ اچانک یہاں سے اپنی فوجیں واپس بلا لے۔
تحقیقی ادارے 'انٹرنیشنل کرائسس گروپ' سے وابستہ ماہر گراہم اسمتھ کا کہنا ہے کہ افغان تنازع کے تمام فریق اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ فوری فوجی انخلا کی وجہ سے افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے جو پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر سکتی ہے۔
اسی لیے ان کے بقول واشنگٹن سے آنے والے غیر واضح اشارے تشویش کا باعث بن رہے ہیں۔