افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن نے کہا ہے کہ ٹرمپ حکومت کی افغانستان سے متعلق نئی پالیسی یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ خطے میں طویل عرصے تک سرگرم رہے گا۔
کابل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل نکلسن نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں ناکام نہیں ہوگا کیوں کہ اس کی قومی سلامتی کا دارومدار بھی افغان جنگ کے نتیجے پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان امریکہ سے میدانِ جنگ میں نہیں جیت سکتے اور اب وقت آگیا ہے کہ وہ امن عمل کا حصہ بن جائیں۔
ناقدین اور خود ڈونلڈٹرمپ بھی صدر منتخب ہونے سے قبل امریکہ کی افغان پالیسی کو یہ کہہ کر کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں کہ اربوں ڈالر کے اصراف اور 16 سال تک امریکی فوج اور اس کے اتحادیوں کی کارروائیوں کے باوجود افغانستان میں قیامِ امن کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
رواں سال فروری میں جنرل نکلسن نے کانگریس کی ایک کمیٹی میں سماعت کے دوران کہا تھا کہ انہیں افغانستان کی صورتِ حال میں پیش رفت کے لیے مزید چند ہزار امریکی فوجی درکار ہوں گے۔
گو کہ صدر ٹرمپ افغانستان میں تعینات امریکی فوجی دستوں میں اضافے کی منظور دے چکے ہیں لیکن تاحال انہوں نے اور نہ ہی ان کے فوجی مشیران نے یہ بتایا ہے کہ مزید کتنے فوجی کتنے عرصے کے لیے افغانستان بھیجے جائیں گے۔
افغانستان میں اس وقت لگ بھگ 8400 امریکی فوجی موجود ہیں جن کی بنیادی ذمہ داری افغان سکیورٹی فورسز کو تربیت اور کارروائیوں میں معاونت فراہم کرنا ہے۔
جمعرات کو کابل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل نکلسن نے کہا کہ مزید امریکی اور نیٹو فوجی دستوں کی افغانستان آمد سے افغان فوج کے تربیتی پروگرام کا دائرہ بڑھانا اور افغان ایئر فورس اور اسپیشل فورسز کے لیے تربیتی مراکز میں اضافہ کرنا ممکن ہوسکے گا۔
امریکی کمانڈر نے صدر ٹرمپ کی جانب سے افغانستان میں حکومت کی جانب سے مزید ڈیڈلائنز نہ دینے اور اس کا اختیار مقامی کمانڈرز کو سونپنے کے فیصلے کو بھی سراہا۔