امریکہ کی خفیہ ایجنسی کے اعلیٰ ترین عہدیدار نے کہا ہے کہ وفاقی ملازمین کے معلومات کو سائبر حملے کا نشانہ بنائے جانے کی تحقیقات میں چین "پر سب سے زیادہ شبہ" ہے۔
یہ بات نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جیمز کلیپر نے کہی ہے جو کہ کسی بھی امریکی عہدیدار کی طرف سے ’ڈیٹا‘ یعنی معلومات کی چوری میں پہلی بار چین پر براہ راست انگشت نمائی ہے۔
کلیپر نے واشنگٹن میں ہونے والی انٹیلی جنس کانفرنس سے خطاب کہا کہ "چینیوں نے جو کیا ہے کہ اس پر آپ کو انھیں سلام پیش کرنا ہو گا۔" ان کا اشارہ اس مشکل حملے کی طرف تھا۔
بعد ازاں کلیپر کے دفتر سے جاری ایک بیان میں ان کی اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے زور دیا گیا کہ "امریکی حکومت اس حملے کی تحقیقات جاری رکھے گی۔"
امریکہ نے آفس آف پرسنیل مینیجمنٹ (او پی ایم) پر ہونے والے سائبر حملے میں کھل کر چین کی حکومت پر الزام تو نہیں لگایا گیا لیکن متعدد حکام یہ کہتے ہیں کہ وہ قائل ہیں کہ "معاملہ دراصل یہی ہے۔"
امریکہ حالیہ برسوں میں اپنے سرکاری اور کاروباری اداروں پر ہونے والے بڑے سائبر حملوں کا الزام چین پر عائد کرتا آیا ہے جن کی چین سختی سے تردید کرتا ہے۔
کلیپر کا کہنا تھا کہ جب تک واشنگٹن مناسب دفاع کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا ممکنہ طور پر ایسے حملے ہوتے رہیں گے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ کہتے ہیں کہ اس معاملے کی تحقیقات جاری ہیں اور بھی اس بارے میں قیاس آرائی درست نہیں۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے "ایف بی آئی" کے حکام کا ماننا ہے کہ معلومات پر سائبر حملے سے کم از کم ایک کروڑ 80 لاکھ سابقہ، موجودہ اور ممکنہ وفاقی ملازمین متاثر ہوئے ہیں۔
باور کیا جاتا ہے کہ ہیکر نہ صرف ملازمین کی بنیادی معلومات تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے بلکہ ان کے ہاتھ ملازمین کے پس منظر سے متعلق انتہائی حساس معلومات تک بھی پہنچے۔
رواں ہفتے ہی امریکہ اور چین کے اعلیٰ عہدیداروں نے واشگنٹن میں تین روزہ اسٹریٹیجک مذاکرات کے دوران سائبر حملوں پر بات کی۔
وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا تھا کہ امریکہ یہ واضح کر چکا ہے کہ سائبر حملے کسی صورت قابل قبول نہیں، لیکن انھوں نے او پی ایم پر حملے کا تذکرہ نہیں کیا۔