پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو طرفہ تجارت میں حائل رکاوٹیں دور کرنے اور ان میں بہتری لانے کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ سائنسز (آئی ایم سائنسز) پشاور میں ایک روزہ سمینار کا اہتمام کیا گیا جس میں دونوں ممالک کی تاجر برادری، چینی سفارت خانے کے اہل کاروں، حکومتی عہدیداروں، سماجی کارکنوں اور طلبا و طالبات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، آئی ایم سائنسز کے ڈائریکٹر محسن خان کا کہنا تھا کہ ’پاک افغان ٹریڈ‘ موجودہ دور میں ایک انتہائی اہم موضوع ہے کیونکہ اس کے ساتھ نہ صرف دونوں ممالک کے عوام کی معاشی بلکہ سماجی ترقی بھی وابستہ ہے۔
چینی سفارت خانے کے پولیٹیکل قونصلر جینگ ہن نے کہا کہ چین پاکستان اور افغانستان کے بہتر تعلقات کا خواہاں ہے اور خصوصاً دوطرفہ تجارت میں بہتری کے لیے بہت پراُمید ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کا حالیہ دورہ چین انتہائی کامیاب رہا جس میں نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات اور جاری منصوبوں پر کافی حوصلہ افزا پیش رفت ہوئی بلکہ خطے کو درپیش مسائل اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تجارتی تعلقات کی بحالی سے منسلک امور پر غور کیا گیا۔
افغان تاجر اعجاز الحق مجاہد نے کہا ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان اس قسم کی تقریبات کا تسلسل جاری رہنا چاہیے، کیونکہ دو طرفہ تجارت کے مسائل میں اضافے کی وجہ سے تجارتی حجم تاریخ کی نچلی ترین سطح تک پہنچ چکا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ دوطرفہ تجارت میں سب سے زیادہ مسائل پاکستان کی طرف سے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ افغانستان تجارت کے لیے نئے راستے تلاش کر رہا ہے، جس میں کچھ حد تک کامیاب بھی ہوا ہے۔
پاک افغان جوائنٹ چمبر آف کامرس کے سینئر نائب صدر ضیا سرحدی نے کہا کہ چند سال پہلے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارتی حجم 2.5 بلین ڈالر تھا جو مختلف مسائل کی بنا پر کم ہو کر اب صرف 50 کروڑ رہ گیا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ تاجر برادری ان مسائل کے حل کی کوششیں کر رہی ہے۔ لیکن دونوں حکومتیں اس کے حل میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتیں۔
افغان تاجروں کو اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت پر اُنہوں نے کہا کہ یہ اچھا قدم ہے۔ لیکن سرحد پر تجارت میں کافی مسائل ہونے سے نہ صرف پاکستان کی برآمدات کم ہو گئی ہیں بلکہ یہاں پر قائم انڈسٹری کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے جس کا واحد حل آزاد تجارتی معاہدہ ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے اسٹبلشمنٹ محمد شہزاد ارباب نے کہا کہ موجودہ حکومت ایسے اقدامات کر رہی ہے، جن سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم میں اضافہ ہوگا۔
اُنہوں نے کہا کہ سرحدی گزرگاہ طورخم کو 24 گھنٹے کھولنے کے انتظامات پر تیزی سے کام جاری ہے اور اُمید ہے کہ اگست میں اسے باقاعدہ کھول دیا جائے گا۔
اُنہوں کہا کہ پاکستان میں مقیم رجسٹرڈ افغان تاجروں کو بینک اکاؤنٹ کھولنے پر کام جاری ہے، جب کہ حکومت نے پشاور سے طورخم تک راستے کو راہداری کا درجہ دینے کا بھی اعلان کیا ہے جس میں سڑک میں توسیع کی جائے گی۔
تقریب کا اہتمام غیر سرکاری تنظیم ’ریجنل فورم فار پیس اینڈ ڈوپلمنٹ‘ نے کیا تھا۔ ادارے کے چیئرمین جہانزیب خان نے کہا کہ دونوں ممالک کے عوام کو آگے آنا ہو گا۔ اُنہوں نے کہا کہ تجارت ہی وہ واحد راستہ ہے جس سے دونوں ممالک کے عوام بہتری کی جانب بڑھ سکتے ہیں، اور اس کا تسلسل مستقبل میں جاری رہیگا۔
پاک افغان جائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے ڈائریکٹر اور افغان تاجر احمد شاہ یارزادہ نے کہا کہ افغان تاجروں کے لیے کراچی ایک انتہائی آسان اور کم خرچ راستہ ہے۔ لیکن مختلف مسائل کے بنا پر انہیں چابہار، بندرعباس اور وسطی ایشا کے راستے یورپی منڈیوں تک پہنچانے کے لیے نئے راستوں کا رخ کرنا پڑ رہا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کو تجارت کو سیاست سے دور رکھنا ہوگا۔
اسلام آباد اور کابل کے درمیان پچھلے کئی برسوں سے شدید سیاسی اختلافات کی بنا پر سب سے زیادہ نقصان دوطرفہ تجارت کو پہنچا ہے۔ افغان مارکیٹ میں پاکستان کی بجائے ایرانی مصنوعات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔