رسائی کے لنکس

روایتی ڈراموں کا سحر ٹوٹ گیا، ’ممنوع موضوعات ‘ پسندیدہ ہو گئے


پاکستان میں ٹی وی پر اب تک’ ممنوع ‘ سمجھے جانے والے موضوعات پر بننے والے ڈراموں کا رجحان تیزی سے ’عام‘ ہو رہا ہے اور اسی تیزی سے روایتی ڈراموں کا سحر ٹوٹ رہا ہے۔ معاشرے میں جہاں اور بہت سی تبدیلیاں ہوتی نظر آرہی ہیں وہیں ڈراموں کے موضوعات میں بھی تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے۔

’ گیلپ سروے آف پاکستان‘ اور ’ پاکستانی میڈیا ریگولیٹرز‘ کی ریسرچ سے سامنے آنے والے نتائج کے مطابق 65 فی صد ناظرین اب ایسے ٹی وی چینلز دیکھنا پسند کرتے ہیں جن پر’باغی‘ جیسے ڈرامے نشر ہوں۔

گیلپ پاکستان کے سروے کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 67 فیصد بالغ خواتین اور 56 فیصد بالغ مرد انٹرٹینمٹ سوپ دیکھنا پسند کرتے ہیں۔

ہم ٹی وی نیٹ ورک کا ڈرامہ ’ اڈاری‘ جس میں بچوں سے زیادتی کو موضوع بنایا گیا تھا مقبولیت کے لحاظ سے اس درجے پر پہنچا کہ بہت سے ریکارڈ توڑ ڈالے ۔

’ اڈاری‘ کے بعد اور اب ’باغی‘ کی غیرمعمولی مقبولیت نے یہ ثابت کر دیا کہ لوگ خواتین پر تشدد ،بچوں سے زیادتی اور معاشرے کے ان دیگر تلخ حقائق پر بننے والے ڈراموں کو زیادہ پسند کر رہے ہیں جن پربات کرنا کبھی ممنوع سمجھا جاتا تھا۔

ایک زمانہ تھا جب پاکستانی ڈراموں کی دھوم دنیا میں ہر اس جگہ تھی جہاں اردو سمجھنے اور بولنے والے رہتے تھے۔ لیکن ان ڈراموں کے موضوعات صرف مخصوص انداز کے ہوتے تھے۔ مثلاً گھریلو، رشتے ناتے یا گنے چنے سماجی مسئلے۔

لیکن اب ٹی وی چینلز ایسے ڈرامے پیش کر رہے ہیں جن میں بیان کی گئی کہانیوں کا شمار کبھی ’شجر ممنوعہ‘ میں ہوا کرتا تھا۔ اس کی سب سے بڑی مثال انٹرنیٹ سلیبرٹی قندیل بلوچ کی زندگی پر بننے والا ڈرامہ ’باغی‘ ہے۔

روایتوں کو توڑتی ڈرامہ سیریل ’باغی‘
نام اورشہرت حاصل کرنے کی خواہشمند قندیل بلوچ کو زندگی میں تو وہ نام اور شہرت نہ ملے سکی جس کے پیچھے وہ بھاگ رہی تھی۔ لیکن مرنے کے بعد ضرور’قندیل بلوچ‘ گھر گھر جانا پہچانا نام بن گیا۔

متنازع سیلفیز اور ویڈیوز اپ لوڈ کرنے والی قندیل بلوچ کو اس کے اپنے سگے بھائی نے مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کر دیا تھا۔

’باغی‘ کی مصنفہ شازیہ خان کے بقول’ قندیل بلوچ شیرنی تھی۔ اسے ابھی مرنا نہیں چاہئے تھے۔‘

شازیہ کہتی ہیں ’قندیل بلوچ کے غیرت کے نام پر قتل نے ایک بار پھراس مسئلے کو شدت سے اجاگر کیا۔ قندیل کی زندگی پر ڈرامہ سیریل بنانے کا مقصد صرف قندیل کی داستا ن نہیں بلکہ نام نہاد غیرت کے نام پر قتل ہونے والی تمام خواتین پر ہوئے ظلم کے خلاف آواز اٹھانا تھا۔‘

ایک نجی ٹی وی چینل سے نشر ہونے والے سیریل ’باغی‘کے ناظرین کی تعداد لاکھوں میں ہے ۔ اس کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ’باغی‘ کی صرف پائلٹ قسط کو ’یوٹیوب‘ پر دیکھنے والوں کی تعداد سولہ لاکھ سے زائد ہے۔

’ایک نہیں کئی’ قندیل بلوچ ‘زندہ ہیں‘، شازیہ خان
ڈرامہ سیریل ’باغی‘ کی مصنفہ شازیہ خان نے وی او اے سے خصوصی گفتگو میں بتایا ’ معاشرے میں ایک نہیں، کئی قیدیل بلوچ ہیں۔ ان کی آواز بن کر وہ آئندہ ان پر کام کریں گی۔ کچھ پر کام جاری بھی ہے جبکہ کچھ پائپ لائن میں ہیں۔‘

شازیہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’باغی‘ نے جہاں انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا ہے وہیں کچھ لوگ ان کی سخت مخالفت میں بھی کھڑے ہوئے ہیں ۔ ان کی گفتگو کا میں نے نہ برا منایا نہ اس پر توجہ دی۔ کچھ کہتی تو میرے خیال میں ’آگ‘ مزید بھڑک اٹھتی ۔ ‘‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ جیسا میں نے پہلے بھی وی او اے کے پلیٹ فارم سے ہی سب سے پہلے یہ کہا تھا کہ میں نے ’باغی‘ میں کہیں بھی قندیل بلوچ کو ’گلوری فائی‘ نہیں کیا۔ میں صرف یہ بتانا چاہتی تھی کہ جنہیں موقع نہ دیا جائے، وہ اپنی راہ خود چن لیتے ہیں۔ قندیل بلوچ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔‘

XS
SM
MD
LG