عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ روائتی ادویات لوگوں کی صحت اور بہبود میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہیں اور انہیں جدید ادویات کی تقویت کے طور پر دیکھنے اور قومی صحت کے نظاموں میں ضم کرنے کی ضرورت ہے ۔اس بارے میں 17 اور 18 اگست کو بھارت کی ریاست گجرات کے شہر گاندھی نگر میں ایک گلوبل سمٹ منعقد ہو رہی ہے ۔
اس اجلاس کی میزبانی عالمی ادارہ صحت اور بھارت مل کر کر رہے ہیں اور یہ اجلاس گروپ 20 کے وزرائے صحت کے اجلاس کے ساتھ ساتھ ہورہا ہے ، جس کی صدارت اس وقت بھارت کے پاس ہے ۔
ایک زمانہ تھا کہ جب گھر میں کوئی بیمار پڑتا تھا تو گھر کے بزرگ ، خاص طور پر دادیاں نانیاں باورچی خانے میں موجود کسی بھی گرم مصالحے یا گھر آنگن میں لگے کسی بھی پودے سے اس کا علاج چٹکیوں میں کر دیا کرتی تھیں ۔
مثلاً نزلہ زکام ہوا تو یخنی بنا کر پلادی، گلہ خراب ہوا تو شہد چٹا دیا ، یا نمک اور نیم گرم پانی کے غرارے کروادئیے یا پھر حلق میں گلیسرین لگا دی،پیٹ خراب ہوا تو پودینے ، سونف ، ادرک اور شہد کا نیم گرم قہوہ بنا دیا گیا ۔ متلی ہوئی تولیموں چٹا دیا، اچار کی پھانک کھلا دی، سر اور جسم میں درد ہوا تو تیل کی مالش کر دی ۔ چوٹ لگی تو ہلدی اور آٹے کا لیپ لگا دیا، پھوڑا نکل آیا تو چاقو سے سرجری کر کے پیپ نکال دی اور مرہم لگا دیا ، اور بہت سے امراض کا علاج جونکوں کی مدد سے کر دیا جاتا تھا۔
لیکن پھر زمانہ بدلا اور انہی جڑی بوٹیو ں اور مصالحوں سے تیار گولیاں اور کیپسول مارکیٹ میں آگئے تو جئی بوٹیوں سے تیار کردہ ان گھریلو ٹوٹکوں کا استعمال کم ہوتا گیا ۔
تاہم دنیا بھر میں روائتی طبیب آج بھی اپنے مقامی، ثقافتی اور آبائی علم او ر تجربے کی بنیاد پر پودوں اور دوائیوں سے تیار کردہ ادویات کو ایک عرصے سے متعدد بیماریوں کےعلاج کے لئے مسلسل استعمال کر رہے ہیں ۔ او ر اب ڈبلیو ایچ او نے بھی ان کے علم اور تجربے کی توثیق کر دی ہے ۔
صحت کی مربوط سہولیات کی فراہمی سے متعلق ادارے کے ڈائریکٹر روڈی ایگرز نے کہا ہےکہ ،"روایتی ادویات ایک عالمی رجحان بن چکی ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے 194 میں سے 170 ملکوں نے رپورٹ دی ہے کہ انہوں نے روائتی ادویات کو کسی نہ کسی انداز سے استعمال کیا ہے ۔ مثلاً آکیوپنکچر ، جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ ادویات، یوگا، اور ان ملکوں کی مختلف ثقافتوں کے زیر استعمال ادویات ۔ در حقیقت لاکھوں لوگوں کے لئے صحت کی دیکھ بھال کے لیے پہلا انتخاب ہوتی ہہیں۔ اور بعض واقعات میں تو یہ ہی واحد انتخاب ہوتی ہیں ۔
نئی ریسر چ جس میں جینومکس اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس شامل ہیں اس شعبے میں داخل ہو رہی ہے اور جڑی بوٹی کی ادویات ، قدرتی مصنوعات ، صحت ، بہبود اور متعلقہ سفر کی صنعتوں میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔
روائتی ادویات کے استعمال میں اضافے میں موبائل فون ایپس ، آن لائن کلاسز اور دوسری ٹیکنالوجیز کے ساتھ ساتھ یو ٹیوب پر معلوماتی ویڈیوز بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں ۔
۔ڈبلیو ایچ او کو اس وقت دنیا بھر کے 170 رکن ملکوں نے بتایا ہے کہ وہ روائتی ادویات کا استعمال کررہے ہیں اور انہوں نے درخواست کی ہے کہ انہیں شواہد اور اعدادو شمار کی بنیا د پر ان ادویات کے محفوظ ، سستے اور قابل عمل استعمال سے متعلق پالیسیوں اور معیاروں کے بارے میں آگاہ کیا جائے ۔
روائتی ادویات کے استعمال میں عالمی دلچسپی میں اضافے کو دیکھتے ہوئے ڈبلیو ایچ او نے بھارتی حکومت کی مدد سے مارچ 2022 میں بھارتی ریاست گجرات کے شہر جام نگر میں روائتی ادویات کا اپنا ایک گلوبل سنٹر قائم کیا جس کا مقصد لوگوں اور کرہ ارض کی صحت اور بہبود کے لیے قدیم طبی معلومات اور جدید سائنس کو ضم کر نے کے ایک علمی مرکز کی تشکیل تھا۔
جدید ادویات کی بنیاد روائتی ادویات ہیں؟
ڈبلیو ایچ او نے کہاکہ جدید ادویات میں سے 40 فیصد کی بنیاد روائتی ادویات ہیں ۔ روائتی ادویات سے متعلق ادارے کے گلوبل سنٹر کے سر براہ ، شیاما کرویلا نے کہا ہے کہ ، کچھ سائنسی اور طبی ٹیکنالوجیز جن کے نتیجے میں طب کے کچھ شعبوں میں نمایا ں تبدیلیاں واقع ہوئیں ، ان کی بنیاد بہت سی روائتی ادویات ہی تھیں ، مثلاً ایسپرین یا ملیریا کے علاج کی دوا artemisinin ۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہام گیبریسئس نے کہا کہ کووڈ 19 کے بعد عالمی صحت سے منسلک اہداف کی تکمیل کی کوششوں میں جو کمی واقع ہوئی تھی انہیں پورا کرنے میں روائتی ادویات ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ روائتی ادویات کو صحت کی دیکھ بھال کے مرکزی نظام میں شامل کر نے سے دنیا بھر کے لاکھوں لوگوں میں صحت کی دیکھ بھال کی رسائی میں موجود خلا کو پورا کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ اور یہ صحت اور بہبود کےلئے لوگوں پر مرکوز ہمہ جہت علاج کی جانب ایک اہم قدم ہو گا۔
کروویلا نے اس موقف سے اتفاق کرتےہوئے کہا کہ اس ہدف کے حصول کےلیے قانونی اقدامات اور وعدے موجود ہیں ۔ مثال کے طور پر 2019 میں اقوام متحدہ میں ریاستوں اور حکومتوں نے شواہد کی بنیاد پر ادویات کوصحت کے قومی نظاموں میں شامل کرنے کے طریقوں کو زیر غور لانے کا عہد کیا تھا۔
گاندھی نگر سمٹ کے موضوعات
بھارت کی ریاست گجرات کے شہر گاندھی نگر میں روائتی ادویات کے اعلیٰ سطح کے اس دو روزہ اجلاس میں اس بارے میں گفتگو ہو گی کہ عالمی صحت کے چیلنجز سے نمٹنے میں مد د کے لئے روائتی ادویات کیا کردار ادا کرسکتی ہیں اور انہیں کس طرح جدید ادویات کے نظام میں ضم کیا جا سکتا ہے ۔
سمٹ میں روائتی ادویات پر ریسرچ اور پرکھ کے طریقے اجاگر کئے جائیں گے ۔ یہ گلوبل اجلاس ملکوں کو اس شعبے میں اپنے تجربات شئیر کرنے ، علاقائی رجحانات اور عمل کے بہترین طریقے دریافت کرنے کا ایک موقع بھی فراہم کرے گا۔
اس سمٹ کا موضوع، فارمیٹ اور زیر بحث موضوعات کو مختلف علاقائی ماہرین کے مشورے سے ترتیب دیا گیا ہے ۔ اور اس بارے میں تمام اپ ڈیٹس ڈبلیو ایچ او کی ویب سائٹ پر پوسٹ کی جائیں گی۔
سائنسی شواہد ضروری ہیں، ماہرین
ڈبلیو ایچ او کے عہدے دار کہتے ہیں کہ روائتی ادویات نے طبی شعبے میں اہم دریافتوں میں ایک کردار ادا کیا ہے اور وہ دوسری اہم تبدیلیا ں لانے میں مسلسل نمایاں کردار ادا کررہی ہیں ۔ تاہم انہوں نے خبر دار کیا کہ کسی بھی نئی تھیراپی یا علاج کے بارے میں سفارشات ٹھوس سائنسی بنیاد پر ہونی چاہئیں ۔
جون ریڈر نے جو ڈبلیو ایچ او کے صحت اور ٹراپیکل بیماریوں پر ریسر چ اور ٹریننگ کے خصوصی پروگرام کےشعبوں کے سر براہ ہیں کہا کہ ،”روائتی ادویات پر سائنسی پیش رفت کو اسی طرح سخت معیاروں پر آگے بڑھایا جانا چاہیے جیسا کہ صحت کے دوسرے شعبوں میں ہوتا ہے ۔ ہمیں ان کو گہرائی اور تنقیدی معائنے کے بعد ہی صحت کے جدید نظاموں میں شامل کرنا چاہئے ۔ “
روائتی ادویات صحت کی دیکھ بھال کے جدید نظام کی جگہ نہیں لے سکتیں
ڈبلیو ایچ او کے عہدے داروں نے کہ ہےا کہ اگرچہ روائتی ادویات نے کئی صدیوں میں اپنی قدر و قیمت ثابت کر دی ہے تاہم یہ صحت کی دیکھ بھال کے جدید نظام کی جگہ نہیں لے سکتیں۔
ڈبلیو ایچ او کے ٹریڈیشنل ، کمپلیمینٹری ، اور انٹیگریٹڈ میڈیسن یونٹ کے سر براہ ، Kim Sungchol نے کہا کہ روائتی اور جدید ادویات صحت کی دیکھ بھال کے دو مختلف نظاموں کی بنیاد پر کام کرتی ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ ہر نظام کے اپنے مخصوص فائدے ہیں ۔ مثال کے طور پر جدید ادویات صحت کے ہنگامی مسائل اور متعدی بیماریوں سے نمٹنے میں بہت اچھی ہیں ۔
جب کہ روائتی ادویات کی اپنی منفرد خصوصیات ہیں اور ان کا ایک زیادہ ہمہ جہتی انداز ہے ۔ یہ بیماریوں کو بڑھنے اور ان سے محفوظ رکھنے میں زیادہ ایڈوانسڈ ہیں خاص طور پر غیر متعدی امراض کے حوالے سے ۔
انہوں نے کہا کہ اس لیے ہمیں دونوں چیزوں کو مختلف طریقے سے دیکھنا ہوگا۔ ہمیں لوگوں اور کرہ ارض کی صحت اور بہبود کو مل کر بہترین طریقےسے انجام دینے کےلیے ہر نظام کے مضبوط پہلوؤں کی نشاندہی کرنا ہو گی ۔
انہوں نے کہا کہ “ یہ ہی ہمارا مقصد ہے۔ “
( اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)
فورم