خیبرپختونخوا کے جنوبی شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے احمد زئی وزیر قبائل کے لشکر نے منگل کے روز حکومت کے وفادار امن لشکر کے دفتر کو جلا دیا۔ دفتر میں موجود سامان کے علاوہ دفتر کے احاطے میں کھڑی دو گاڑیاں بھی جل کر راکھ ہوگئیں۔ تاہم قبائلی لشکر پہنچنے سے قبل دفتر میں موجود افراد وہاں سے بھاگ گئے تھے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے کمشنر عبدالغفور بیگ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق انہوں نے مسلح افراد کے دفتر پر وزیر قبائل کے حملے اور اسے جلانے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ مسلح افراد نے ایک روز قبل وزیر قبائل سے تعلق رکھنے والے نوجوان ادریس کو معمولی تکرار کے بعد گولیاں مار کرہلاک کر دیا تھا۔
مقتول ادریس جو کہ مقامی یونیورسٹی کے لاء کالج کا طالبِ علم تھا، اس کے رشتہ داروں نے بتایا کہ ادریس کی شیخ یوسف کے علاقے میں حکومتی حمایت یافتہ امن لشکر کے رکن کی گاڑی سے ٹکر ہوئی تھی جس کے نتیجے میں دونوں کے مابین تلخ کلامی ہوئی جو اس وقت ختم ہو گئی۔ لیکن بعد میں مسلح شخص نے ادریس پر اس وقت گولیاں چلا دیں جب وہ اپنے والد کی دکان پر موجود تھا۔ فائرنگ کے نتیجے میں ادریس موقع پر ہی ہلاک ہو گیا تھا جبکہ اس کا ایک بھائی زخمی ہوا۔
رشتہ داروں نے بتایا کہ بعد میں وزیر قبائل نے جرگے میں لشکر تشکیل دیا اور ردِ عمل میں امن لشکر کے دفتر اور املاک کو جلا ڈالا۔ مدینہ کالونی میں واقع اس دفتر پر جب حملہ کیا گیا تو مقامی پولیس اہلکار بھی وہاں پہنچے تھے تاہم قبائل دفتر کو جلانے کے بعد واپس چلے گئے۔
مبینہ قاتل کا تعلق تنظیم امن کمیٹی سے ہے۔ بعد میں احمدزئی وزیر اور جنوبی وزستان کے دیگر قبائلی زعماء کے ایک مشترکہ جرگے میں ادریس کے قاتلوں کو فوری طورپر گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ بصورت دیگر انہوں نے احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس سید فدا حسین کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ادریس کے قتل میں ملوث تین ملزمان میں سے ایک نے ازخود گرفتاری دے دی ہے، جبکہ دو ملزمان کی گرفتاری کیلئے کوششیں جاری ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ قتل کے اس واقعے کے ردِ عمل میں نجی املاک کو جلانے اور نقصان پہنچانے والوں کے خلاف بھی کاروائی کی جائے گی۔
خیبرپختونخوا کے جنوبی شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں جنوبی وزیرستان کے احمدزئی وزیر قبیلے سے تعلق رکھنے والے نوجوان کے قتل کا واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا ہے جب اسی قبائلی علاقے کے نوجوان نقیب اللہ محسود کے قتل کے خلاف اسلام آباد میں قبائلیوں اور سول سوسائٹی کا دھرنا جاری ہے۔ نقیب الله کو کراچی میں پولیس کے ایک خود ساختہ مقابلے میں مارا گیا تھا۔ اس قتل کا نامزد ملزم پولیس افسر راؤ انوار مفرور ہے۔