رسائی کے لنکس

افغان پناہ گزینوں کی واپسی میں عالمی برادری مدد کرے: سہ فریقی اجلاس


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اقوام متحدہ کی نمائندہ نے کہا کہ پناہ گزینوں کی وطن واپسی، وہاں ان کے قیام کو مستحکم بنانے اور پھر کسی مزید نقل مکانی سے بچنے کے لیے بین الاقوامی برادری کی حمایت بہت اہم ہے۔

پاکستان، افغانستان اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے منگل کو ہونے والے سہ فریقی اجلاس میں عالمی برادری پر زور دیا گیا کہ وہ افغان مہاجرین کی واپسی کے عمل کو مکمل بنانے میں تعاون کریں۔

یہ سہ فریقی اجلاس اسلام آباد کے قریب سیاحتی مقام بھوربن میں ہوا۔

اجلاس میں افغانستان کے وزیر برائے مہاجرین سید حسین علمی بلخی اور پاکستانی وفاقی وزیر برائے سرحدی امور عبدالقادر بلوچ کے علاوہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے پاکستان اور افغانستان میں نمائندوں نے بھی شرکت کی۔

اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی رضا کارانہ اور باوقار واپسی اس مسئلے کا ترجیحی حل ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین یعنی ’یو این ایچ سی آر‘ کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق پاکستان کی طرف سے ملک میں مقیم اندراج شدہ افغان پناہ گزینوں کے قیام میں 31 دسمبر 2016ء تک کی جانے والی توسیع کے معاہدے پر بھی تینوں فریقوں نے دستخط کیے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین، پاکستان اور افغانستان کے سہ فریقی طریقہ کار کے تحت 2001ء سے اب تک پاکستان سے 39 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین اپنے وطن واپس جا چکے ہیں۔

تاہم اب بھی پاکستان میں 15 لاکھ اندراج شدہ افغان پناہ گزین ہیں جب کہ لگ بھگ اتنی ہی تعداد میں افغان باشندے ایسے بھی ہیں جن کے کوائف پاکستان میں درج نہیں ہیں اور حکومت پاکستان اُن کے قیام کو غیر قانونی قرار دیتی ہے۔

سہ فریقی اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان کے مطابق پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے سربراہ اندریکا راتاوی کی نے کہا کہ وطن واپس جانے والے پناہ گزینوں کے لیے اعانتی رقم بڑھائے جانے سے ان افراد کو دوبارہ اپنے معاشرے میں ضم ہونے میں مدد ملے گی، تاہم انھوں نے زور دیا کہ ترقیاتی امور سے متعلقہ دیگر عناصر بھی اپنی معاونت کو بڑھائیں تاکہ پناہ گزینوں کی واپسی کو مستحکم کیا جائے۔

"پناہ گزین نوجوانوں کو تعلیم اور فنی تربیت سے آراستہ کرنا اور ان کی ضروریات زندگی میں معاونت ان کی معاشرے میں دوبارہ ضم ہونے اور افغانستان اور خطے میں خوشحالی و استحکام بخشنے کے لیے اہم ہے۔"

واضح رہے کہ حال ہی میں ’یو این ایچ سی آر‘ کی طرف سے افغانستان واپس جانے والے ہر فرد کو بطور امداد دی جانے والے 200 ڈالر کی رقم کو بڑھا کر 400 ڈالر کر دیا تھا۔

سہ فریقی اجلاس میں شریک پاکستان کے وفاقی وزیر برائے ریاستوں اور سرحدی امور عبدالقادر بلوچ نے افغانستان کی حکومت اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے ساتھ مل کر پناہ گزینوں کی رضاکارانہ اور بحفاظت واپسی کے لیے اپنی حکومت کے عزم کا اعادہ کیا۔

انھوں نے اس ضمن میں افغان حکومت کی حکمت عملی کو سراہا لیکن ساتھ ہی ساتھ اس بات پر بھی زور دیا کہ وہ رضاکارانہ طور پر افغانستان واپس جانے والوں کے لیے پاکستانی حکومت کی طرف سے وضع کردہ حکمت عملی پر عملدرآمد کے لیے فوری، مستحکم اور قابل عمل اقدام کرے۔

وفاقی وزیر نے بین الاقوامی برادری پر بھی زور دیا کہ وہ اس حکمت عملی کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے افغان حکومت کی معاونت کرے۔

پناہ گزینوں کی وطن واپسی کے افغان وزیر سید حسین علیمی بلخی نے وطن واپس آنے والوں کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس ضمن میں منصوبے کو رواں سال ستمبر تک حتمی شکل دے دی جائے گی۔

"ہم لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی اقتصادی دباؤ کے باوجود تین دہائیوں سے زائد عرصے تک میزبانی پر پاکستان کی حکومت اور عوام کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔"

افغانستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کی نمائندہ مایا امراٹنگا کا کہنا تھا کہ پناہ گزینوں کی وطن واپسی، وہاں ان کے قیام کو مستحکم بنانے اور پھر کسی مزید نقل مکانی سے بچنے کے لیے بین الاقوامی برادی کی حمایت بہت اہم ہے۔

"ایک ایسے وقت جب دنیا کی توجہ یورپ جانے والے افغانوں پر ہے، اس بات کا ادراک کلیدی حیثیت رکھتا ہے کہ افغان پناہ گزینوں، وطن واپس جانے والے اور ضرورت مند بے گھر افراد کی سب سے بڑی تعداد یہاں ہمارے بیچ ہے۔ اب پہلے سے کہیں زیادہ افغانستان اور خطے کو بین الاقوامی برادری کی حمایت درکار ہے۔"

XS
SM
MD
LG