صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب کے دوران چین کی تجارتی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ دنیا کی یہ دونوں عظیم معیشتیں اپنے تجارتی تنازعے کو ختم کرنے کے لیے کسی سمجھوتے پر پہنچ سکتی ہیں۔
اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ نے چین کی معاشی پالیسیوں کو غیر منصفانہ قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ چین نے اپنا اقتصادی ماڈل، منڈیوں تک رسائی میں بڑے پیمانے کی پابندیوں، اندرون ملک بھاری سبسڈی، کرنسی کے اتار چڑھاؤ کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے، ٹیکنالوجی کی زبردستی منتقلی اور املاک دانش کے حقوق اور تجارتی رازوں کی بڑے پیمانے پر چوری کے اقدامات پر استوار کر رکھا ہے۔
صدر ٹرمپ نے زور دے کر کہا کہ اس کے یہ دن ختم ہو چکے ہیں۔
تاہم، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اینٹونیو گوٹیرس نے خبردار کیا ہے کہ دنیا دو سب سے بڑی معیشتوں یعنی امریکہ اور چین کے درمیان تقسیم ہو کر رہ گئی ہے جس سے انٹرنیٹ، کرنسی، تجارت، مالیاتی کردار اور جیو پولیٹکل اور فوجی حکمت عملیوں کے دو متبادل نظام وجود میں آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ صورت حال ابھی خطرناک حد تک نہیں پہنچی، تاہم یہ حقیقی طور پر موجود ہے۔
ایران کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے صدر ٹرمپ نے دنیا کے ممالک سے کہا کہ وہ ایران کی طرف سے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات کے حملے کے تناظر میں ایران پر دباؤ ڈالنے کے لیے امریکہ کا ساتھ دیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ کو شراکت داروں کی ضرورت ہے نہ کہ دشمنوں کی۔ انہوں نے کہا کہ امن کا راستہ اب بھی موجود ہے۔
تاہم اُن کا کہنا تھا کہ جب تک ایران اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتا، اُس پر اقتصادی پابندیاں برقرار رہیں گی اور اُن کی شدت میں مسلسل اضافہ کیا جائے گا۔
صدر ٹرمپ نے خلیجی ممالک پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لائیں تاکہ علاقے میں ایران کے مقابلے میں متبادل قوت سامنے آ سکے۔
ایران کے صدر حسن روحانی بھی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے لئے نیویارک میں موجود ہیں۔ تاہم، وہ صدر ٹرمپ کے خطاب کے دوران جنرل اسمبلی میں موجود نہیں تھے اور انہوں نے اس دوران اپنے ہوٹل میں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے آج صبح میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ 2015 میں طے پانے والے جوہری سمجھوتے میں معمولی رد و بدل یا اضافے کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ امریکہ ایران پر اقتصادی پابندیاں اٹھا لے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے خطاب میں آئندہ صدارتی انتخاب کے حوالے سے اپنے ووٹروں کو مطمئن کرنے کے لیے خطاب کے دوران اپنے لہجے کو نرم رکھا۔