امریکی صدر جو بائیڈن اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ منگل کو ملک بھر میں پارٹی کے پرائمری انتخابات میں شاندار فتوحات کے ساتھ، فیصلہ کن طور پر نومبر میں ہونے والے اپنے 2020 کے صدارتی انتخابات کے دوبارہ میچ کے قریب پہنچ گئے، اور بدھ کی صبح ٹرمپ کی آخری رہ جانے والی مقابل ، نکی ہیلی نے اپنی انتخابی مہم معطل کر دی۔
52 سالہ ہیلی، جو کہ ٹرمپ کے عہد صدارت میں اقوام متحدہ میں سفیر رہ چکی ہیں، کئی مہینوں سے ووٹرز کو بتاتی رہی ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ نئی نسل کے لیڈروں کو منتخب کرے۔ وہ اپنی انتخابی مہم میں ووٹروں کو بتاتی رہی ہیں کہ نہ تو 77 سالہ ٹرمپ اور نہ ہی 81 سالہ بائیڈن آئندہ جنوری سے شروع ہونے والی نئی چار سالہ مدت میں ملک چلانے کے لیے موزوں ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کو، ایک ایسے وقت میں بھی جب انہیں، 91 الزامات پر مشتمل چار فرد جرم کا سامنا ہے، اپنے ریپبلکن پیروکاروں میں بڑی حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے سپر ٹیوزڈے ووٹنگ میں پارٹی کے صدارتی نامزدگی کے انتخابات میں، 15 میں سے 14 ریاستوں میں ہیلی کو شکست دی، ہیلی کو صرف شمال مشرقی ریاست ورمانٹ میں ہی کامیابی ملی۔
صدارتی دوڑ سے الگ ہوتے ہوئے، ہیلی نے صدار تی مقابلےکے لیے ٹرمپ یا کسی دوسرے امید وار کی توثیق نہیں کی۔
بائیڈن، صرف علامتی مخالفت کے ساتھ، ڈیموکریٹک مقابلوں میں غالب رہے، صرف امریکی علاقے سماوا میں وہ پارٹی کاکس میں ہارے ہیں۔
تازہ ترین نتائج کے مطابق بائیڈن نے ڈیموکریٹک پارٹی کے 15 ریاستوں کے تمام پرائمری مقابلوں اور کاکسز میں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان ریاستوں میں ورجینیا، ٹیکساس، منی سوٹا اور کولوراڈو کی اہم ریاستیں بھی شامل ہیں۔
ایک بیان میں صدر بائیڈن نے نومبر پانچ کے انتخابات کے حوالے سے متنبہ کیا کہ ٹرمپ کے لیے ایک اور صدارتی مدت کا مطلب "افراتفری، تقسیم اور تاریکی" ہو گا۔
بائیڈن نے کہا کہ "آج ملک بھر میں لاکھوں ووٹرز نے اپنی آوازیں سنائی ہیں، یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ہمیں پیچھے کی طرف لے جانے کے انتہائی منصوبے کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہیں۔"
ادھر ٹرمپ نے ریاست فلوریڈا میں اپنے حامیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو پچھلے تین برسوں کے دوران بڑی پسپائی کا سامنا رہا کیوں کہ بائیڈن نے معیشت اور امیگریشن سے نمٹنے میں غلطی کی۔
ٹرمپ نے جو 2020 میں بائیڈن سے دوبارہ انتخاب ہار گئے تھے، منگل کو اپنی جیت کا جشن منایا اور نومبر کے انتخابات کو ملکی تاریخ کا اہم ترین دن قرار دیا۔
منگل کو ٹرمپ نے جن ریاستوں میں کامیابی حاصل کی ان میں کیلی فورنیا، کولوراڈو، مین، منی سوٹا، نارتھ کیرولائنا اور ٹیکساس شامل ہیں۔
'سپر ٹیوزڈے' کے مقابلوں کے بعد دونوں جماعتوں کے کنونشنز میں ایک تہائی سے زائد مندوبین کی آرا سامنے آئی ہیں اور یہ ٹرمپ اور صدر بائیڈن کے لیے صدارتی نامزدگی کے حصول کی طرف ایک بڑا قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
دونوں رہنما آئندہ چند ہفتوں میں پرائمریز میں اپنی اپنی پارٹی کی جانب سے نامزدگی کے حصول میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
ری پبلکن پارٹی سے صدارتی نامزدگی کے حصول کی دوڑ میں ٹرمپ کی مدِ مقابل سابق امریکی سفیر نکی ہیلی کے سپر ٹیوزڈے کے مقابلوں کے بعد پرائمری دوڑ میں کامیابی کے امکانات ختم ہو رہے ہیں۔
خیال رہے کہ امریکی نظام کے تحت سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کے لیے لازم ہے کہ وہ صدارتی الیکشن میں نامزدگی حاصل کرنے کے لیے پارٹیوں کے پرائمری مقابلوں میں کامیابی حاصل کریں۔
سیاسی جماعتوں کے ان پرائمری مقابلوں میں کامیابی کا تعین ڈیلی گیٹس کی کل تعداد کے 50 فی صد کی حمایت کے حصول سے ہوتا ہے۔
ڈیمو کریٹک پارٹی میں کسی سیاست دان کو صدارتی امیدوار کی نامزدگی حاصل کرنے کے لیے تمام ریاستوں اور امریکی کے دیگر علاقوں کے کل ڈیلی گیٹس میں سے 1968 کی حمایت حاصل کرنی ہوتی ہے۔
ری پبلکن پارٹی کی صدارتی نامزدگی حاصل کرنے کے لیے کسی امیدوار کا 1215 مندوبین کی حمایت کا حصول لازم ہے۔
سپر ٹیوزڈے کے مقابلوں سے قبل بائیڈن نے تمام ڈیمو کریٹک پرائمریز میں واضح برتری کے ساتھ فتح حاصل کی تھی۔
تاہم ڈیمو کریٹک پارٹی کے بائیں بازو کے کچھ لوگوں کی یہ کوشش رہی ہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے غزہ پر اسرائیل کے حملوں کے معاملے پر بائیڈن کے مؤقف کے خلاف احتجاج کے طور پر ڈیمو کریٹک ووٹرز بائیڈن کی بھر پور حمایت سے گریز کریں۔
دوسری جانب ری پبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ کو منگل کے مقابلوں سے قبل صرف ایک پرائمری الیکشن میں شکست ہوئی تھی جب گزشتہ اتوار کو ریاست جنوبی کیرولائنا کی سابق گورنر نکی ہیلی نے انہیں واشنگٹن ڈی سی میں ہرایا تھا۔
اس رپورٹ میں شامل کچھ معلومات ایسو سی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔