ری پبلیکن پارٹی کے سرکردہ صدارتی امیدوار نےہفتے کو فلوریڈا کے شہر، ٹمپا میں ایک ریلی سے خطاب کیا، جہاں اُنھوں نے ڈیموکریٹس اور ری پبلیکنز دونوں پر خوب برسے۔ یہ کہنا مشکل ہوگا آیا ڈونالڈ ٹرمپ کے لیے یہ ہفتہ ٹھیک نہیں رہا۔
ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والی اُن کی حریف ہیلری کلنٹن ایک بار پھر نشانہ بنیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ سابق وزیر خارجہ نے اِی میلز کا غلط استعمال کیا؛ جنھیں اُنھوں نے ’’ٹیڑھی ہیلری‘‘ قرار دیا۔ تاہم، میساچیوسٹس کے ری پبلیکن پارٹی کے سابق گورنر، مِٹ رومنی کو ’’شوخ مزاج والا ہارا ہوا شخص‘‘ قرار دیا، جو ٹرمپ کی نامزدگی کی حمایت سے انکار کر چکے ہیں۔
ٹرمپ نے ری پبلیکن پارٹی کے سینیٹ کی ارکان پر نکتہ چینی کی جنھوں نے اُن کے امیدوار بننے کی حمایت نہیں کی۔ اُنھوں نے کہا کہ ری پبلیکن پارٹی کو ’’مل کر کام کرنا ہوگا، جیت کے لیے مل کر کام کرنا ہوگا‘‘۔
یہ بیان ایسے میں سامنے آیا ہے جب اسی ہفتے کے دوران ارب پتی امیدوار کی رائے عامہ کے تجزیوں میں مقبولیت کم بتائی گئی ہے۔
’ریئل کلیئر پالٹکس‘ کی جانب سے سامنے آنے والے تازہ ترین سروے سے پتا چلتا ہے کہ ٹرمپ کلنٹن سے 3.8کی شرح سے کم مقبول ہیں۔
’فاکس نیوز‘ کے عام جائزے میں کلنٹن کو تین نکتے بہتر دکھایا گیا ہے؛ جب کہ رائٹرز نے ڈیموکریٹک امیدوار کے لیے 8 پوائنٹ کی برتری ظاہر کی ہے۔
رومنی کا سربراہ اجلاس
اس سے قبل، آج ہی کے دِن رومنی نے کہا تھا کہ ’’نسل پرستی‘‘کی باتیں کرکے، ٹرمپ برے اثرات کی حامل خطرناک مثال قائم کر رہے ہیں۔
تقریباً 300 کاروباری افراد اور ری پبلیکن پارٹی کے عطیہ دہندگان کے سالانہ کاروبای اور سیاسی سربراہ اجلاس سے خطاب میں رومنی نے یہ بھی کہا کہ کلنٹن کو ووٹ دینا قابلِ قبول نہیں ہوگا: ’’دونوں صورتوں میں تباہی ہے‘‘۔
ری پبلیکن پارٹی کے سابق صدارتی امیدوار نے مشکل سے اپنے آنسو روکے۔ اُنھوں نے کہا ’’میں اِس ملک سے محبت کرتا ہوں۔ میں ملک بنانے والوں سے محبت کرتا ہوں۔ میں اس ملک کی اساس سے محبت کرتا ہوں، اس کی اقدار سے لگائو ہے۔ اور یہ دیکھ کر میرا دل پریشان ہو جاتا ہے‘‘۔
رومنی کے خطاب سے چند ہی منٹ قبل، ری پبلیکن پارٹی کی چیرمین رنس پریبس نے مجمعے کو بتایا کہ ٹرمپ ایک موئثر صدر ثابت ہوں گے اور یہ کہ وہ اُن کی مدد کے ساتھ یا بغیر اِس کے، جیت جائیں گے۔
ٹرمپ نے ہفتے کو ٹوئٹر پر رومنی کو جواب دیا کہ: ’’مِٹ رومنی کے پاس ایک موقعہ تھا کہ وہ ناکام صدر کو شکست دیتے۔ لیکن وہ کتے کی طرح اَڑے رہے۔ اب وہ مجھے نسل پرست کہتے ہیں۔ لیکن، میں کسی اعتبار سے نسل پرست شخص نہیں‘‘۔
رائن کی سرزنش
نیو یارک میں منعقدہ بند کمرے کے اجلاس میں ری پبلیکن پارٹی کے 300 اہم عطیہ دہندگان کے سامنے رائن کو سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ اطلاع ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ نے دی ہے۔
حالانکہ اخباری نمائندوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی، تین افراد نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اخبار کو بتایا کہ سب سے سخت سوال مگ وِٹمن نے کیا، جو ’ہیوئٹ پیکارڈ‘ کی منتظم اعلیٰ ہیں۔ اُنھوں نے رائن سے کہا کہ وہ ایک امیدوار کے نام کی حمایت کس طرح کرسکتے ہیں، جو، بقول اُن کے، خراب کردار کے مالک لگتے ہیں اور وہ ایسی انتخابی مہم چلا رہے ہیں جو ذاتی حملوں اور تقسیم کے رویے کی غماز ہے۔
رائن نے ایوان کے ارکان کی جانب سے پڑنے والے دبائو کا ذکر کیا، اُن اضلاع میں جہاں ری پبلیکن ووٹر ٹرمپ کی کھل کر حمایت کرتے ہیں۔
مجلس میں شریک ایک شخص نے کہا کہ ’’کیا آپ 2020میں صدارت کا انتخاب لڑیں گے؟‘‘، جس پر کمرے میں خوب تالیاں بجیں۔
مکونیل کا ٹرمپ کو مشورہ
سینیٹ کے قائد ایوان، مِچ مکونیل نے کہا ہے کہ پارٹی کے متوقع امیدوار کو ایک تجربہ کار ساتھی کا چنائو کرنا ہوگا، جب کہ اُنھیں گفتگو اور نسلی گروہوں سے پیش آنےکا انداز بدلنا ہوگا۔ یہ بات ’بلوم برگ پالٹکس پوڈکاسٹ‘ نے بتائی ہے۔
مکونیل نے کہا کہ ’’اُنھیں کسی انتہائی تجربہ کار اور دانشمند شخص کو ساتھ رکھنے کی ضرورت ہوگی، چونکہ یہ بات واضح ہے کہ اُنھیں بہت سے مسائل کی پرکھ نہیں‘‘۔
تاہم، کنٹکی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر نے کہا کہ وہ ٹرمپ کی حمایت کرنے پر’’ پُر سکون‘‘ ہیں۔
ڈیموکریٹس متحد ہو رہے ہیں
جب کہ ایک پارٹی منقسم ہے، دوسری اتحاد کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
کلنٹن نے گذشتہ منگل کو بروکلن میں ووٹروں کی ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اعلیٰ بننے کے لیے، ہم گِرے ہوئے عمل نہیں کرسکتے‘‘۔
اس ہفتے کلنٹن نے اُس وقت تاریخ رقم کی، جب وہ ایک اہم سیاسی جماعت کی متوقع امیدوار بنیں۔ صدر براک اوباما نے اُن کی نامزدگی کی حمایت کا اعلان کیا۔ ایک وڈیو پیغام میں جو کلنٹن کی انتخابی مہم نے پوسٹ کیا ہے، اُنھوں نے کہا کہ ’’اُن میں یہ حوصلہ اور رحمدلی ہے کہ وہ بخوبی کام انجام دے سکتی ہیں‘‘۔ یہ حمایت ایسے میں سامنے آئی جب صدر اوباما نے اوول آفس میں ایک گھنٹے تک ورمونٹ کے سینیٹر، برنی سینڈرز سے ملاقات کی۔