سال 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات کی مہم تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ لیکن، مہم کےختم ہوتے ہوتے بھی ری پبلیکن پارٹی کے ڈونالڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک پارٹی کی ہیلری کلنٹن، منگل کے انتخابی معرکے سے قبل، اب بھی بڑی بڑی ریلیوں کی قیادت کر رہے ہیں۔
ٹرمپ منہ پھٹ اور جائیداد کے نامور کاروباری شخص ہیں جو پہلی بار کسی منتخب عہدے کے لیے میدان میں اترے ہیں۔ وہ سابق وزیر خارجہ کلنٹن کو سخت مقابلہ دینے کے لیے اب بھی پانچ ریاستوں کا دورہ کر رہے ہیں۔ سیاسی جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ امکان یہی ہے کہ ہیلری ملک کی پہلی خاتون صدر بن سکتی ہیں۔ ادھر، کلنٹن پنسلوانیا، مشی گن اور نارتھ کیرولینا کی تین ریاستوں کے چار مقامات پر جائیں گی۔ فلوریڈا اور نیو ہیمپشائر کے علاوہ یہ وہی ریاستیں ہیں جن کا ٹرمپ دورہ کر رہے ہیں۔
یہ پانچ ریاستیں اُن ریاستوں میں شامل ہیں جہاں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے، جن کے نتائج کا ملک کے 45 ویں صدر کا انتخاب طے کرنے میں بڑا اہم کردار ہوگا، جو کامیاب امیدوار 20 جنوری کو صدر براک اوباما کی جگہ لے گا۔
سیاسی تجزیہ کار، نتھن گونزالیز نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’یہ قریب ترین مقابلے والی دوڑ ہے، لیکن یہ قسمت کی کا معاملہ نہیں ہے‘‘۔ اُنھوں نے یہ بات اُس وقت کہی جب مہم کے آخری دِن کی انتخابی مہم بند ہونے کے قریب تھی۔ بقول اُن کے، ’’زیادہ امکان اِسی بات کا ہے کہ وہ ہی جیتیں گی‘‘۔
امریکی سیاسی سروے رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ مقبول قومی ووٹ کی نسبت سے کلنٹن کو دو سے تین فی صد نقطوں کی تھوڑی لیکن پائیدار سبقت حاصل ہے؛ جب کہ امریکی صدارتی انتخابات کا فیصلہ ملک کی 50 ریاستوں اور قومی دارالحکومت، واشنگٹن میں حاصل ہونے والے نتائج پر ہوتا ہے۔ الیکٹورل کالج کے اعتبار سے، کثیر ترین آبادی والی ریاستوں میں جیت ہی دراصل فیصلہ کُن ہوتی ہے، جہاں کامیاب ہونے والے امیدوار کو 538 الیکٹورل ووٹوں میں سے 270 کی اکثریت حاصل کرنا ہوتی ہے، تب جا کر کوئی وائٹ ہاؤس پہنچنے کا دعویٰ کرتا ہے، جس کی بنیاد ریاستوں کے نتائج پر ہوتی ہے۔
گنزالیز نے کہا ہے کہ کلنٹن اور ٹرمپ کی کامیابی کے ایک جیسے امکانات نہیں؛ ’’دراصل، ڈونالڈ ٹرمپ کو زیادہ اور کلیدی ریاستوں میں بہتر نتائج دکھانا پڑیں گے‘‘۔
زیادہ تر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کلنٹن کے لیے 270 کا عدد حاصل کرنا زیادہ مشکل نہیں، جب کہ ٹرمپ کو زیادہ ریاستوں میں بہتر نتائج دکھانا پڑیں گے، جہاں اب بھی کلنٹن کو برتری حاصل لگتی ہے۔
گنزالیز نے کہا کہ انتخابات سے قبل سامنے آنے والی عام جائزہ رپورٹوں میں کلنٹن کو ملنے والے مقبول ووٹ کا فرق اتنا نہیں، جتنا کہ اُن کے لیے ’’270 کے اکثریتی الیکٹورل کالج کو حاصل کرنے کی راہ نسبتاً آسان لگتی ہے۔ اُن کے لیے ہمدردیاں بدلنے کی امکانی ریاستوں میں سے ساری ریاستوں میں جیتنا ضروری نہیں‘‘۔ ’سونگ اسٹیٹس‘ وہ ریاستیں ہیں جو ڈیموکریٹک یا ری پبلیکن بن جائیں گی۔
سب سے پہلے، ٹرمپ فلوریڈا رُکے، جو بڑی جنوب مشرقی ریاست ہے جس کے 29 الیکٹورل ووٹ ہیں۔ بحر اوقیانوس میں فلوریڈا کے ساحل کے قریب ٹرمپ کا ایک محل ہے، اور وہ خوب جانتے ہیں کہ انتخاب جیتنے کے لیے لازم ہے کہ وہ اس ریاست میں جیتیں، تاکہ قومی سطح پر وہ کلنٹن کو شکست دے سکیں۔