امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ برس 25 مارچ کو کاروباری لین دین کے ریکارڈ میں غلط بیانی سے متعلق فوجداری مقدمے کا سامنا کریں گے۔
مین ہٹن اسٹیٹ کورٹ کے جج جسٹس جان مرچن نے منگل کو سماعت کے دوران ٹرمپ کے خلاف مقدمہ چلانے کی تاریخ کا اعلان کیا۔ اس موقع پر سابق صدر فلوریڈا سے بذریعہ ویڈیو لنک عدالتی کارروائی میں شریک ہوئے۔
جسٹس جان مرچن نے ٹرمپ کو مشورہ دیا کہ وہ پراسیکیوٹر کو فراہم کردہ شواہد پر عوامی سطح پر بات نہ کریں۔
واضح رہے کہ 2016 کے صدارتی انتخابات سے قبل پورن اسٹار اسٹورمی ڈینئل کو خاموش رہنے کے لیے رقم کی فراہمی سے متعلق اس مقدمے میں ٹرمپ پر مختلف نوعیت کے 34 الزامات عائد کیے گئے ہیں تاہم سابق صدر ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
ٹرمپ پر مذکورہ مقدمہ چلانے کی تاریخ ایسے وقت مقرر کی گئی ہے جب وہ آئندہ برس صدارتی نامزدگی کی دوڑ میں ری پبلکن پارٹی کی جانب سے شامل ہیں۔
انہیں اب ایسے وقت عدالتی کارروائی کا سامنا ہو گا جب وہ مارچ 2024 میں صدارتی الیکشن کی بھرپور تیاریوں میں مصروف ہوں گے۔
سماعت کے دوران ٹرمپ نے عدالت کو صرف یہ بتانے کے لیے بات کی کہ ان کے پاس آٹھ مئی کے عدالتی حکم نامے کی ایک کاپی موجود تھی جس میں انہیں کیس سے متعلق شواہد کسی تیسرے فریق بشمول کسی میڈیا یا سوشل میڈیا پر ظاہر کرنے سے روکا گیا تھا۔
جج مرچن نے کہا کہ اگر ٹرمپ نے شواہد عیاں کرنے کی پابندی کی خلاف ورزی کی تو انہیں توہینِ عدالت کی کارروائی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
ٹرمپ کے وکیل ٹوڈ بلینچ نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے موکل کو عدالتی احکامات پر تحفظات ہیں اور وہ اسے آزادیٔ اظہارِ رائے کے حق کی خلاف ورزی تصور کرتے ہیں۔
جج مرچن نے کہا کہ انہوں نے ٹرمپ کی انتخابی مہم پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی۔ ٹرمپ اپنے خلاف عائد الزامات سے انکار کرنے میں آزاد ہیں اور وہ خود پر لگنے والے الزامات کے خلاف اپنا دفاع کر سکتے ہیں۔
ٹرمپ پر گرینڈ جیوری کی سماعت کے منٹس، گواہوں کے بیانات سمیت دیگر مواد سے متعلق پابندی عائد ہے جب کہ پراسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ ٹرمپ سوشل میڈیا پر مخالفین پر حملے کرتے رہے ہیں اور امکان ہے کہ وہ گواہوں کو ہراساں کر سکتے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنے خلاف مقدمے کی تاریخ 25 مارچ 2024 مقرر کیے جانے کو 'انتخابات میں مداخلت' قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ 25 مارچ کی تاریخ دے کر ہم پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔
ٹرمپ نے منگل کو ہونے والی عدالتی کارروائی کے بعد اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹرتھ سوشل پر کہا کہ آزادیٔ اظہارِ رائے کے ان کے حق کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
اس خبر میں معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔